“If the book is true, it will find an audience that is meant to read it.” — Wally Lamb

“You don’t start out writing good stuff. You start out writing crap and thinking it’s good stuff, and then gradually you get better at it. That’s why I say one of the most valuable traits is persistence.” ― Octavia E. Butler

“You can always edit a bad page. You can’t edit a blank page.” ― Jodi Picoult

“Every secret of a writer’s soul, every experience of his life, every quality of his mind, is written large in his works.” — Virginia Woolf

“I can shake off everything as I write; my sorrows disappear, my courage is reborn.” — Anne Frank

Monday, 31 December 2018

آخری دن سال آخری دن سال کا کا

آخری دن سال کا

 
آج سال کا آخری دن پھر٢٠١٨ کبھی نہ آے گا.اوراس طرح دنیا کا ایک اورسال مکمل گیااورزمین نے ایک اورچکرپورا کر لیا. .دیکھا جاۓ تو ہرگزراوقت ہم کواحساس دلاتا ہیں انسانی زندگی کا اوراس کے گزرجانےکا.کافی انسان وقت کےاس احساس کو سمجتے ہیں اوربہت سارے پچھلے سالوں کی طرح آنے والے سال کو بھی ایسےہی گزردے گے.سھمجدارلوگ اپنے وقت کا حساب رکھتے.اپنی غلطیوں کو صیحی کرتے ہیں اوراپنی آنے والی زندگی آرامدہ کرنے کے لیا کوشش کرتے ہیں.با حثیت ایک مسلمان ہم قسمت اور نصیب پرزیاده یقین رکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی سوچ و چارسے بھی اپنی زندگی بدلنے کی کوشش میں رھتے ہیں اوربدل بھی لیتے ہیں

جس طرح انسان ذاتی زندگی کواچھا کرنے کی کوشش میں رہتا ہیں .قومی سطح پربڑے ممالک بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں .چاہے وہ معاشی،سماجی یا کاروباری سطح پر ہو.ہرچیز کا ایک منصوبہ ہوتا ہیں.جدید دنیا میں توحکومتی سطح پرایک خاص قسم کا ادارہ کام کرتا ہیں جسے ریسیچ اینڈ ڈویلپمنٹ یعنی تحقیق اورتعمیرہم اپنی زبان میں کہہ سکتے ہیں جو صرف آنے والے وقت کا استعمال کرسکے کے لیا بنایا جاتا ہیں.دورجدید کی دنیا کی اصل کامیابی کی وجہ بھی یہ منصوبہ بندی ہی ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے کرمیدان میں آگے ہیں اور وہ دنیا کو ایک نظام دے رہے ہیں.اورایسی قومیں ہی دنیا میں اپنا نام پیدا کرتی ہیں

پاکستان کی بات ہوجاۓ جو دنیا میں آبادی کے حساب سے نمبر ٨ پر ہیں.یعنی دنیا کی آٹھویں بڑی لیبرطاقت.جہاں ملک نے ایٹومک پاور حاصل کیا بھی ٣٠ سال ہو گی ہیں.جہاں ١٢٠ یونیورسٹیز ہیں ١٢٠٠٠ طلباء اورطالبات ہرسال گریجویٹس ہوتے ہیں ،جہاں کی سب سے بڑی صنعت ایگریکلچر ہیں .پھرملک میں معدنیات کے ذخائر ،پھر سیرو سیاحت  کے لیا مقامات،صحرا ،پہاڑ ،دریا،قدرتی جنگل اور لاہور ملتان سندھ اور ٹیکسلا کے قدیم عجوبے.اس کے باوجود پاکستان کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہیں.جہاں آبادی کا ٦٠% فیصد  حصہ ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھاتا.جہاں سب کچھ ہیں،لیکن بھوک اور افلاس ختم ہونے کا نام ہی نہی لے رہی.اس کی بڑی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان اور کرپشن ہیں.کچھ لوگ ملک کی دولت پر قبضہ ہیں.یہ وہ نالایق ٹولہ ہیں جو ملکی دولت کو وقت با وقت  لوٹ کر لے جاتا ہیں.جن میں تین قسم کے لوگ آرام سے دیکھے جا سکتے ہیں .خیر ہم بات  منصوبہ بندی کی کر رہے تھے .ایک وقت تھا جب ایک حکمران جسے ہم ایوب خان کے نام سے جانتے ہیں.اس نے پہلی بار پاکستان میں پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا .١٩٥٥ سے  .١٩٦٠ پھر دوسرا  پانچ سالہ منصوبہ ١٩٦٠سے ١٩٦٥.اس  پانچ سالہ منصوبہ کی وجہ سے پاکستان نے ٢٠% دولت کمائی .یعنی ٢٠%  آمدنی اضافہ کیا ،دس سالوں میں پانچ ڈیم بنے. زرعی اصلاحات ،پرائیویٹ بنکنگ  اور صنعت کو ترتیب دیا .پاکستان کا یہ پلان کاپی ہوا کوریا اور جرمنی میں .لیکن ایوب خان کے بعد پاکستان میں  پانچ سالہ منصوبے آگے نہ چل سکے .جس کی وجہ آنے والی حکموتوں کی  ذاتی رنجیشے ،عقل کی کمی اور منافقت بھی کہی جا سکتی ہیں .جس کا نتجہ آج ہم ٥٠ سال بعد بھی تیسری دنیا میں شمار کیے جاتے ہیں.ملکی ترقی کے لیا ایک قوم بننا ضروری ہیں.    

Saturday, 29 December 2018

آئس کا مزہ


آئس کا مزہ


آئس جس کا مطلب تو برف ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہم پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر برف کے رنگا رنگ لال پیلے  گولے اورفالودے میں  ڈالتے ہیں اور گرمیوںکی شدت کوٹھنڈہ کرتے ہیں .آج کل پاکستان میں گرمی ہو یا سردی ہر طرف آئس ہی آئس زیربحث ہیں.پچھلے ایک دو ہفتوں سے آئسکا چرچا خوب ہو رہا ہیں ہمارے میڈیا میں تواس آئس کو ذکر ایسے ہو رہا ہیں جیسا مارکیٹ میں کسی نئی برانڈ کی آمد ہوئی ہو.پھرکچھ دن پہلے ایک سفرمیں جب ٹیکسی ڈرائیورنے پوچھا صاحب یہ آئس کیا چیز ہیں تو جواب میں ڈرائیور سے پوچھا جناب آپ نے آئس کا نام کہا سنا تو جواب ملاکہ اسکول کی طلبہ فون پراپنی دوست سے آئس کا ذکراپنی دوست سے کر رہی تھی اوراسکول میں لانے کا بول رہی تھی .خیرگوگل سیارچ انجن پر ذرا سی جانچ پڑتال کی تو پتہ چلا یہ جو آئس ہیں وہ کوئی ٹھنڈی چیز نہیں بلکے ایک گولی ہیں جوپاکستان کے ہربڑے شہر کراچی ،لاہور، راولپنڈی،اسلام آباد سے پشاورتک مل رہی ہیں.اورھمارے طلبه اور طالبات اسکول سے لے کر کالجز اور یونیورسٹیز تک اس آئس نامی گولی کے دیوانے پن میں مبتلا ہیں.آئس ہیں کیا اور کیوں استعمال ہوتی اوراس لعنت کوکس نے متراف کروایا اس کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں
 

کرسٹل میتھ ایمفیٹامین،کرسٹل میتھ، شابو، کرسٹل گلاس، شارڈ  یہ سب آئس کے مختلف نام ہیں جو اس کو استمعال کرنے والے جانتے ہیں اورآرڈر کرتے وقت استعمال کرتے ہیں.آئس a stimulant drug  مطلب ایک محرک منشیات.لو جی جس کو ہم ٹھنڈاسمھج رہے تھے وہ تو ایک نشہ اورگولی نکلی.جس کا مطلب اور استعمال ہمارے جسم اوردماغ کے درمیان میسج کے عمل کومعمول سے تیزکرنا ہیں.جس کا باقدگی سے استعمال انسان کواس کا عادی کر دیتا ہیں .چونکہ یہ ایک سخت نشہ آور گولی ہیں تو اس کے  ضمنی اثرات زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں.یہ گولی میتھ ایمفیٹامین نامی پاؤڈر یعنی عام نشے سے  زیادہ نقصان دہ ہیں. آئس کے استمال کے مختلف عمل ہیں جیسے کہ انجیکٹ کرنا ،نگلنا،سگریٹ نوشی میں استعمال کرنا وغیرہ.ہماری سائنس اور طب اس قسم کے نشہ یا کسی بھی  اور نشے کے متعلق نرم گوشہ نہیں رکھتی.ایکسپرٹس کا خیال ہیں کہ یہ نشہ انسانی میسج سسٹم کوتیز کرنے کے ساتھ سونے کے عمل میں خلل ڈالتا ہیں.باقی اپنے پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافے کے یہ

 https://adf.org.au/drug-facts/ice/  بلاگ کا لنک ہیں .جوآپ کو 


    

Image result for ice drug


سمجنے کے لیا دیا گیاہیں
 

اب ذرا ذکر ہوجاہے ریاست کا جس کا کام عوام کی  فلاح و بہبود ہیں. ریاست ایک غیرقانونی کام  جواس کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا اور اور اب بھی ہو رہا ہیں. جس کا ذکرآج اتنا عام ہیں اور بچے بچے کی زبان پرہیں جس کا ذکر ڈاؤن  اخبار نے ٢ جون ٢٠١٧ اورڈیلی پاکستان آبزرور Daily Pakistan Observer نے ٢٠١٨ جولائی میں اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہیں .کیا یہ خبر کسی قانون نفاذ کرنے والے ادارے کی نظر سے نہیں گزاری یا اس میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں نظر آیا.کیسے ڈرگ مافیا اور پاکستان کے اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیز میں یہ نشہ بک رہا ہیں اور وہ بھی ٢٠٠٠ اور ٣٠٠٠ ہزارپاکستانی کرنسی میں.کون ہیں جو یہ نشہ ہماری ینگ نسل میں پھیلا رہا ہیں .اسلام آباد سکولز کی کنٹینز سے اس گولی کا ملنا ایک واضح ثبوت ہیں کسی کی سرپرستی کا اورسکولز کی انتظمیا کا بھی جو یا تو نظر چوراہ رہے ہیں یا پھراس جرم میں وہ بھی شریک ہیں.اس کی ضرور جانچ پڑتال ہونی ضروری ہیں.اور آج کل ھمارے قانونی ادارے اور خاص کر جناب چیف جسٹس صاحب کرپشن ،ڈیمز اور بحریہ ٹاؤن ملک ریاض کی جان چھوڑکراس طرف کچھ توجہ دیں.اپنی نئی نسل کو اس لعنت سے دورکریں یہ کرپشن سے بھی بڑا جرم ہیں. عمران خان کی حکمومت کے وفاقی وزیر  جناب آفریدی صاحب سے گذارش ہیں کہ پاکستان کے اسکول ،کالجز ،یونیورسٹیز اورکچھ و اسکول کے بچوں کےوالدین کو بھی سزا و جرمانے کریں .ٹیچرز کے ساتھ والدین بھی ذمدار ہیں.آئس جس کو ہماری نوجوان نسل صرف فن یعنی مزہ کا نام دے کر لطف و اندوز  ہو رہی ہیں.آئس مزہ نہیں ایک قاتل ہیں خاموش قاتل.
  

     .

Friday, 28 December 2018

عدالتی فیصلہ آگیا

عدالتی فیصلہ آگیا


نوازشریف پھر جیل چلےگے.جس کے ساتھ ساتھ ڈیل کی خبریں بھی دم تھوڑ گئی.جن کی بازگش فیصلے سے پہلےاسلام آباد سےآ رہی تھی.لیکن نواز شریف نے لگتا ہیں اس بار کوئی ڈیل نہ کرنا ہی بہتر سمجا اور جیل جانے کو ترجہی  دی اور ملک میں ہی رہنا بہتر سمجھا. سیاسی اعتبار سے ایک اچھا فیصلہ ہیں.اگر ڈیل ہو جاتی جوکہ حکومت کے لیا ضروری تھی .کیونکےحکومت کی اپنی کارکردگی کمزور سے کمزور ہیں .کوئی معاشی پالیسی سوا بیان بازی کے نظر نہیں ے رہی اور اپوزیشن کی ایک کال عوام کو روڈز پر لانے کے لیا  کافی ہیں اور  ویسے بھی نواز شریف صاب کا کیس دیکھ کر بھی اس کوسمجھاجا سکتا ہیں .بدعنوانی کھربوں کی اورجرمانہ اور٧ سال کی.ال-عزیزیہ اورفلیگ شپ کیس میں نوازشریف کو ٹوٹل چارارب کا جرمانہ اور سات سال کی قید بظاھر قانون اورعوام دونوں کے ساتھ مذاق سا لگتا ہیں .ایک طرف ٣٥ سال سے بدعنوانی کا الزام اورثابت صرف ٤ارب کی  بدعنوانی.احتساب عدالت کے اس فیصلےکا سراسر فاہدہ ہم عوام کوتوکچھ نہیں ہوا .البتہ عمران خان کی گورنمنٹ کو پنجاب میں کچھ سکون ضرورمل گیا ہیں .اور لگ بھی کچھ ایسا ہی رہا ہیں اورپانچ سال بعد نواز شریف صاب پھر سے ایوان اقتدار میں ہوں گۓ .اور قانون عوام اور سسٹم ویسے کا ویسا ہی رہے گا
 

نواز شریف کیس کا فیصلہ پاکستان کےعدالتی یا قانون کی کمزوری کا واضح آینہ ہیں جو آج بھی فیصلے قانونی نہی مفاہمتی کر رہا ہیں.ایسے فیصلے کسی فرد کو فاہدہ دیتے ہیں ملک یاعوام کو نہیں اور نہ ہی ملک کو ایک نظام ملتا ہیں .آج بی اسی نظام کے تحت مشرف آزاد ہیں.ڈاکٹر عاصم ٤٦٠ ارب کی کرپشن کے بعد بھی آزاد ہیں.اور پاکستان تحریک انصاف کی گورنمنٹ جو عدل و انصاف اورکرپشن سے پاک نظام کا نعرہ لگا کراقتدار کے ایوانوں میں آئی ہیں .اب تک کرپشن کے خلاف بل میں نہ لا سکی .پرامید ہیں عدالت اس کا حکم بھی جاری کرے گی .کیونکے کہ  آج کل حکم کہی سےآ کر ایوان میں پاس ہوتے

Monday, 24 December 2018

گلگت کی آواز

گلگت کی آواز

     
گلگت بلتستان کو صوبہ کا حق پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ملا.گلگت بلتستان کی حدود کو دیکھا جاتے تو یہ پاکستان کے شمال میں ایک خوبصورت وادی ہیں جس کا منزل دلکش ہیں.بلند و بلا پہاڑ اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے  ہیں.ہر وہ جگہ جہاں پہاڑ ہو برف باری ہو .وہ ایریا ویسے بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوتا ہیں .سردیوں میں سخت سردی ہوتی ہیں اور گرمی میں تو ایسے علاقے پانی کے شور سے  اور موسّم میں سردی کی شدت کمی کی وجہ سے رہنے کے لیا خوش گوار  اور صحت افزا تصور کیے جاتے ہیں

گلگت بلتستان کی آبادی آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتی ہیں اور باقی کچھ شیعہ اور سنی بھی آباد ہیں گلگت کو ایسے  انتظمی بنیاد کی  وجہ  سے خود مختار کیا گیا تھا .جبکے دکھا جائیں تو اس خود مختاری کا عوام کی حالت زار پر کوئی خاص فرق نہیں پڑہ.عوام کی حالت اب بھی نہیں بدلی .آج بھی گورنمنٹ کے اسکول فنڈ کی کمی کی وجہ سے نہ چلنے کے قبل ہیں اور ہسپتال لوں کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہیں .جو ہسپتال آغا خان کی فنڈنگ سے چل رہے ہیں.ایسا لگتا ہیں جیسے گلگت بلتستان آغا خان کی ذاتی جاگیر ہو.یہ کام  گورنمنٹ کا ہیں نہ کے آغا خان کا.اگر آغا خان نے ہی سب کچھ کرنا ہیں تو پھر اختیار بھی آغا خان کو ہی دی دیا جائیں.

گلگت بلتستان جو کہ ایک سیرو سیاحت کے لیا پرفضا مقام ہیں حکومت کی غلفت کی وجہ سے اپنی حیشت دن با دن کھوتا جا رہا ہیں ویسے بھی  بقول عمران خان کہ ہم کو ملک کے دولت اکھٹی کرنی ہیں تو جناب ٹورازم آپ کو جتنی دولت دی سکتا ہیں اپ مانگ کر نہیں پوری کر سکتے .گلگت کا شندورمیلا جس میں پولو کا کھیل کافی مہشور ہیں اورعالمی سطح اپنی پہچان رکھتا اور دنیا بھر کے ٹورسٹس سال بھر اس کے شروع ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں .گورنمنٹ ہ پاکستان کے اس حصے کو اپنا سمجے اوراس ایریا کو ڈیولپ کریں .یہ ایریا پاکستان کے ٹورازم کو  آگے لے جا سکتا ہیں .گرمیوں میں اس جگہ خوب چہل پہل ہوتی ہیں .یہاں ٹورازم کو ترقی دی  جائیں یہاں ڈویلپمنٹ کے پروجیکٹ  کیا جائیں.اگر روڈ کا نظام صیحی ہو گا اسکول بنے گے ہسپتال ہو گے تو فائدہ عوام اور پاکستان دونوں کا ہیں .یہ تھوڑی سی انویسٹمنٹ  انڈوں اور کٹوں سے بھی اچھا منافع دیں گیی. علمی ٹورسٹ  کو جب ٹور میں  کوئی چیز اچھی لگے تو وہ اس کا ذکر  آگے ١٠ لوگوں سے کرتے ہیں .جو ہمارے اس  ایریا کو پروموٹے کرنے  لیا ایک اچھی کاوش  ہو سکتی ہیں .حکومت کو اس علاقے کی ترقی کا فوری سوچنا ہو گا نہ صرف  اس کا بلکے ہراس علاقے کا جہاں سیرو سیاحت کی جاسکتی ہیں

Saturday, 22 December 2018

لو پھرآئی بسنت


Image result for pakistani kites
 Image result for pakistani kites

                                                                                                                                                          

لو پھرآئی بسنت

بسنت یعنی کے پتنگ بازی .پتنگ بازی پنجاب کا ایک کلچرل تہوار ہیں .جو ہندوستان کا پنجاب ہو یا پاکستانی پنجاب دونوں اطرف میں بڑھے شوق اور  جذبے سے موسم بہارکےشروع میں منایا جانا شروع ہو جاتا ہیں.رنگ برنگ کی پتنگیں نیلےآسمان کواور بھی خوبصورت اوردلکش بنا دیتی ہیں.بسنت یا پتنگ بازی کا رواج پنجاب میں مھراجہ رنجیت سنگھ کے دورہ بادشاہت میں شروع ہوا.رنجیت سنگھ اوراس کی بیوی بڑے اتہمام سے بسنت مناتے.اس دن رنگ برنگ کے کپڑے پہنے جاتے.طرح طرح کے پکوان پکاے جاتےاورلوگ سارادن پتنگ بازی کرتے.یوں پتنگ بازی کا یہ تہواررنجیت سنگھ کےبعد بھی پنجاب میں جاری رہااورآج تک اسی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہیں

 


پنجاب کی تقسیم کے بعد بسنت بھی تقسیم ہوگیی ہندوستانی اورپاکستانی پنجاب میں اورلاہورکےعلاوہ قصور،گجراوالا، سیلکوٹ ،گجرخان،راولپنڈی اورپشاورمیں خصوصی طور پر پورے موسم بہارمیں بسنت کا تہوارمنایا جاتا.لاہورنے پتنگ بازی میں خاصی پہچان حاصل کی.اسی اورنوے کی دہائی میں بسنت کے تہوار نے پاکستان اورلاہور کودنیا بھر میں پہچان دی.اورلاہور بسنت کے تہوار سے دنیا بھرمیں جانا جانے لگا.بسنت کے تہوار نے دنیا بھر کے پاکستانیوں اورغیر ملکیوں کی توجہ کو متوجہ کیا. بسنت کے تہوار نے نہ صرف پاکستان کوایک پیچان دی بلکے اس سے پاکستان کی دوسری انڈسٹریز جیسا کہ ہوٹلنگ اور کھانے پینے کوبھی فائدہ دیا.ایک وقت تھا جب مارچ کا پورا مہینہ لاہورسیاہؤں سے بھرا ریتا.پھر یوں ھوا اس تہوارکو شاید کسی سازش کے تحت ناکام کر دیا گیا اوریوں بسنت کےتہوارپرپاکستانی عدالت نے پابندی لگا دی.

 ہماری عدالت نے اس بسنت کے تہوار پر٢٠٠٩ میں جان لیوا تہوارقرا دے کر پابندی لگا دی .بسنت کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بٹھے .کچھ جانیں گی اور یوں ٣٠٠ سالہ بسنت کا تہوار جس نے لاہورکوایک پہچان دی وہ گورنمنٹ اور کچھ انسانی اور منافع خور لوگوں کی وجہ سے ختم ہو گیا .یہ بات بلکل صیحی ہیں کچھ شک نہیں انسانی جان کی قیمت کسی بھی اور چیز سے زیادہ نہیں ہیں.لیکن اگر دیکھا جاہے توعدالت پنجاب گورنمنٹ کو بھی حکم دے سکتی تھی.پتنگ بازی کوایک محفوظ تہوار بنانے میں اورامن وامان کوقائم رکھنا میں. ریاست  کا کام ہی ہوتا ہیں عوام کے کاروبار کو تحفظ دینا .اگر دیکھا جائیں تولاکھوں لوگ اس کاروبار سے جڑے ہوۓ تھے.اس پابندی سے کافی لوگ بے روزگار ہوۓ .نہ صرف لوگ باروزگار ہوۓ بلکہ وہ سیاح جو ہر سال صرف بسنت کا تہوار منانےلاہور آتے تھے وہ سلسلہ بھی تمام ہوا.اور یوں جولاہورعالمی دنیا کی توجہ کا مرکز تھا.ہماری گورنمنٹ آف پنجاب کی بری انتظمیہ کی وجہ سے زوال پذیرہو گیا.اوراگرلاہورہائی کورٹ کچھ دیر کی پابندی کے ساتھ گورنمنٹ کو حفاظتی اقدامات کا نوٹس دیتی تو یہ تہوار آج اپنی پوری شان سے ماجود ہوتا اور ہماری ٹورازم کی صنعت کو پروان چھاڑاتا


اگرآپ کوپتنگ بازی کا شوق ہیں توآپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ گورنمنٹ نے اس سال بسنت کو منانے کا حکم دے دیا ہیں اوراس سال لاہوراور پنجاب والے پتنگ بازی کریں گے. جوکہ ایک خوش آیںد بات ہیں اورایک اچھا فیصلہ ہو سکتا ہیں.یہ فیصلہ خوش آیںد ہو سکتا ہیں اگر ہم عوام پتنگ بازی میں ایک خاص دھاگہ جو کسی زمانے صرف پتنگ کے لیا استعمال ہوتا  تھا وہی کریں اور وہ جان لیوا جسے کیمکل دھاگہ بولتے  ہیں  اس کو نہ استعمال کریں اوراب گورنمنٹ کو بھی اب پتنگبازی کے قواعد و ضوابط  مراتب کریں.تو کوئی وجہ نہیں کہ بسنت پھر سے ایک  کامیاب تہوار کے طور پر لاہوراور پاکستان کو دنیا میں متراف کروادے .یہ صرف ممکن ہیں اگر ہم عوام اور گورنمنٹ مل کر اسے کامیاب  کریں .اس سے ہماری بہت سی انڈسٹریزچلنا شروح ہو جائیں گی اور اس سے ہماری ٹورازم انڈسٹری بھی آگے بڑھے گی

Tuesday, 18 December 2018

مکیش امبانی ایک رول ماڈل















  مکیش امبانی ایک رول ماڈل

 
ریلائنس کمپنی کا نام بہت بار سنانے کو ملا ہندستان کے مختلف ٹی وی چینلزپرلیکن کبھی یہ جانے کی کوشش نہیں کی کہ اس کا مالک کون ہیں.یہ کیا کام کرتے ہیں ان کے کاروبار کی نوعیت کیا ہیں پھر ٢٠١٠ میں  تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا اتفاق ہوا.انگلستان  کی ایک سرد صبح جب لیکچرہال پہنچا تو استاد نے ایک کیس اسٹڈی دیا جوکے دھیرو بھائی امبانی کی ریلائنس کمپنی کے بارے میں تھا.گھرآ کر جب گہرائی میں پڑھا. میں تودھیرو بھائی امبانی کی کاروباری جدوجہدسے کافی متاثر ہوا.ایک انسان جب کسی کام کی ٹھان لیتا ہیں توکامیابی پھراس کا نصیب بن جاتی ہیں.یہ سنا تھا پردھیرو بھائی امبانی کی کاروباری کہانی اس بات کو حقیقی روپ دیتی ہیں. دھیرو بھائی امبانی نے  سترہ سال کی عمر میں کلرک کی نوکری کی اور پھرکچھ ہی عرصے میں چھوڑ کر واپس ممبئی آ گۓ .١ ہزار روپیہ سے ایک کاروبار شروع کیا.١٩٧٥ میں ریلائنس  کمپنی بنائی .دھیرو بھائی امبانی صرف ٢٧ سال کی محنت نے ریلائنس  کودنیا کی ٹاپ ١٠٠ کی لسٹ میں لے آے .اور امبانی صھاب ایشیا  کے ٹاپ ٥٠ کاروباری آفراد کی لسٹ میں جگہ بنا لئ . ٢٠٠٢ میں دھیرو بھائی امبانی اس دنیا سے رخصت ہوۓ تو ریلائنس کمپنی کی  مالیھیت ٦ ارب ڈالرز تھی.کمپنی کے چلانے کے لیے  امبانی کے بڑھے بیٹے مکیش امبانی آگے آے اور کمپنی کو سنبھلا 

.مکیش امبانی نے بزنس اسٹڈیز میں ماسٹرز ڈگری امریکا سے حاصل کی. اور کم عمری میں  اپنی ہی کمپنی میں کام شروع کیا.ریلائنس  کمپنی  نے شروع میں رفیننگ ،پیٹروکیمیکل ،تیل اور گیس کے شبہ میں کام کر رہی تھی .مکیش امبانی  نے کاروبار کوپھیالا اور ٹیلی کمیونیکشن میں بھی انویسٹمنٹ کی.٢٠١٦ صرف ١٥ سال میں ریلائنس  کمپنی انڈیا کی ٹاپ ٥  کمپنی لسٹ میں آ گیئ .آج  مکیش امبانی انڈیا کا نمبر ایک امیر انسان ہیں اور ایشیا کا ٤٣ نمبرامیرانسان ہیں.آج ریلائنس  کمپنی کی مالیت ٦٠بلین$ ہیں.دھیرو بھائی امبانی کامیابی کے  لیا محنت، سخت خطرناک فیصلوں پر یقین رکھتے تھے جب کہ مکیش امبانی وقت پرکام کو ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں یہی ان  کی کامیابی کا راز ہیں.آج کے ہندوستاں  کی معیشت کو مضبوط بناںے میں ریلائنس  کمپنی کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا  جا سکتا ہیں کہ جو گیس کا یونٹ ٨$ میں لگتا ہیں وہ یہ کمپنی ١$ میں فراہم کرتی ہیں.اسی ہفتے مکیش امبانی کی بیٹی کی شادی ہوئی جو دنیا کی دوسری مہنگی ترین شادی میں گنی جاتی ہیں .امبانی خاندان تیسری دنیا کے کاروباری افراد کے لیا ایک رول ماڈل ہیں جوامنداری سے کاروبار کر رہے ہیں اور ملکی ترقی کے لیا اپنا سرمایہ  کم کر کے معیشت کو مضبوط بنا رہے
 

Sunday, 16 December 2018

چوٹی سی بات












عدالت انصاف  جلدی کرو

    چوٹی سی بات


ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن  پچھلےایک سال سے چیف جسٹس کے کمرہ عدالت میں لٹکا ہوا ہیں .بحریہ ٹاؤن پر ناجائز زمین کےقبضہ اورتعمیرات کا الزام  ہیں.آج ایک طرف ملک ریاض کا کیس ہے اور دوسری طرف اسی عدالت نےایک اوراس جیسے کیس میں آج کے پرائم منسٹر جناب عمران خان کوان کےغیر قانونی گھرکو تھوڑے سے جرمانہ دینے پرلیگل کردیا. دوایک جیسےکیسزمیں مختلف فیصلے پاکستانی عدالتی نظام کی مضبوطی کا خاکہ پیش کر رہے ہیں .بحریہ ٹاؤن جس کو ملک ریاض اور انتظمیاں پچھلے ٢٣ سال سے کامیابی سے چلا رہے ہیں.بحریہ ٹاؤن اب ملک ریاض کا ہی نہیں بلکہ یہ اب ایک ادارہ ہیں ایک  برانڈ  ہیں.جس میں پاکستان اور پاکستان سے باھر رہنے والوں کا سرمایا  لگا ہوا ہیں جو ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا حصہ دال رہا ہیں. بحریہ ٹاؤن میں لاکھوں لوگ کاروبار کر رہے ہیں .ان میں کافی جاب پیشہ بھی ہیں.اب اگر عدالت یا گورنمنٹ کے پاس اتنے ذارئع ہیں کہ وہ ان لوگوں کوجابزدیں گی .بقول عمران خان کے وہ ٥٠ لاکھ گھر دیں گے پانچ  سالوں میں .جناب جو گھر دیں رہا ہے  اسے تو کام کرنے دیں.باقی رہی  بات ناجائز زمین کی تو اسکا ذمہ دار کیا صرف ملک ریاض ہیں.اور بھی  لوگ ہو گے.تو صرف توپوں کا رخ صرف ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن میں رہنے والے پر ہی کیوں .کیا جب یہ سب ہو رہا تھا اس وقت ریاست سو رہی تھی.اگر ملک ریاض  قصوروار ہیں تو پھر ریاست کی اور اس وقت کے لوگ بی ذمہ دار ہیں .اگر ایک ناجائز  قبضہ والے بنی گلہ کے گھر کو لیگل کیا جا سکتا ہیں تو ایک بحریہ ٹاؤن جس میں پاکستانیوں کا پیسا لگا ہوا ہیں اسے کیوں نہیں..کیوں لوگوں کی روزی  کو بند کی جا رہا ہیں .کیا میسج  دیا جا رہا ہیں نیا کاروبارکرنے والوں کو.کہ ان کوبھی ملک ریاض بنا دیا جانے گا.اگر بقول عدالت کے بحریہ  ٹاؤن میں اتنا گپلا ہیں تو باقی ہاؤسنگ پروجیکٹس میں کیا ہو رہا ہو گا .ضرورت اس بات کی ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کے کیسز کو جلد سے  جلد کلیر کیا جائیں نہ کے تاریخ پر تاریخ اس کا نقصان پاکستان کی ریل اسٹیٹ انڈسٹری کو ہو رہ  ہیں.کچھ خیال کیا جانے   

Saturday, 15 December 2018

جمہوریت

Democracy 😍


حاجی شکور صاحب کے بڑے بیٹے کا بیان ہے کہ میرا یقین تو جمہوریت سے سنہ 1988 ہی میں اٹھ گیا تھا۔
کہنے لگا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جمعرات کو میں اور میرے باقی تینوں بہن بھائی، امی ابو کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ابا جان نے ہم سب سے پوچھا: بچو، کل تمھارے چچا کے گھر چلیں یا ماموں کے گھر۔


ہم سب بہن بھائیوں نے بہت شور مچاکر چچا کے گھر جانے کا کہا، ماسوائے امی کے جن کی رائے تھی کہ ماموں کے گھر جایا جائے۔
بات اکثریت کے مطالبے کی تھی اور رائے شماری سے طے پا گیا تھا کہ چچا کے گھر جانا ہے۔ امی کا موقف ہار گیا تھا۔ ابا جان نے بھی ہماری رائے کے احترام میں چچا کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ ہم سب بہن بھائی چچا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبائے جا سوئے۔


جمعہ کے دن صبح اٹھے تو امی نے گیلے بالوں کو تولیہ سے صاف کرتے ہوئے بمشکل اپنی ہنسی دبائے انھوں نے ہمیں کہا کہ سب جلدی سے کپڑے بدلو، ہم لوگ تمھارے ماموں کے گھر جا رہے ہیں۔

میں نے ابا جان کی طرف دیکھا جو خاموش اور توجہ سے اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ فرما رہے تھے۔ میں غریب کا بال منہ تکتا رہ گیا۔
بس جی، میں نے تو اسی دن سے جان لیا ہے کہ جمہوریت، اکثریت کی رائے کا احترم اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ تو ایک سے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل فیصلے تو بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب غریب عوام سو رہی ہوتی ہے