Democracy
حاجی شکور صاحب کے بڑے بیٹے کا بیان ہے کہ میرا یقین تو جمہوریت سے سنہ 1988 ہی میں اٹھ گیا تھا۔کہنے لگا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جمعرات کو میں اور میرے باقی تینوں بہن بھائی، امی ابو کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ابا جان نے ہم سب سے پوچھا: بچو، کل تمھارے چچا کے گھر چلیں یا ماموں کے گھر۔
ہم سب بہن بھائیوں نے بہت شور مچاکر چچا کے گھر جانے کا کہا، ماسوائے امی کے جن کی رائے تھی کہ ماموں کے گھر جایا جائے۔ بات اکثریت کے مطالبے کی تھی اور رائے شماری سے طے پا گیا تھا کہ چچا کے گھر جانا ہے۔ امی کا موقف ہار گیا تھا۔ ابا جان نے بھی ہماری رائے کے احترام میں چچا کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ ہم سب بہن بھائی چچا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبائے جا سوئے۔
جمعہ کے دن صبح اٹھے تو امی نے گیلے بالوں کو تولیہ سے صاف کرتے ہوئے بمشکل اپنی ہنسی دبائے انھوں نے ہمیں کہا کہ سب جلدی سے کپڑے بدلو، ہم لوگ تمھارے ماموں کے گھر جا رہے ہیں۔
میں نے ابا جان کی طرف دیکھا جو خاموش اور توجہ سے اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ فرما رہے تھے۔ میں غریب کا بال منہ تکتا رہ گیا۔
بس جی، میں نے تو اسی دن سے جان لیا ہے کہ جمہوریت، اکثریت کی رائے کا احترم اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ تو ایک سے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل فیصلے تو بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب غریب عوام سو رہی ہوتی ہے
0 comments:
Post a Comment