“If the book is true, it will find an audience that is meant to read it.” — Wally Lamb

“You don’t start out writing good stuff. You start out writing crap and thinking it’s good stuff, and then gradually you get better at it. That’s why I say one of the most valuable traits is persistence.” ― Octavia E. Butler

“You can always edit a bad page. You can’t edit a blank page.” ― Jodi Picoult

“Every secret of a writer’s soul, every experience of his life, every quality of his mind, is written large in his works.” — Virginia Woolf

“I can shake off everything as I write; my sorrows disappear, my courage is reborn.” — Anne Frank

Tuesday, 15 January 2019

احتساب کا ڈھول ڈم ڈم


 احتساب کا ڈھول ڈم ڈم


ہر گورنمنٹ پاکستان میں احتساب کا کھیل کھیلتی ہیں. سواۓ پاکستان پیپلز پارٹی ہیں.دیکھا جاۓ تواس ملک میں کبھی احتساب ہوا ہی نہیں ، صرف احتساب کے نام پر ڈرامہ ہی ہوا ہیں.اوراگر پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے دور میں احتساب کا بل پاس کیا ہیں اوراحتساب کیا ہیں تو وہ صرف سیاسی مخالفوں کا .وہ احتساب ذاتی تھا .اور کچھ تو اپنی طاقت کے اظہار کے کچھ نہ تھا جس کی واضح مثال١٩٩٦ کی فوجی عدالتیں جو بجلی چوری اور کرپشن کے خلاف تھیں.باقی ٢٠١٣ کی گورنمنٹ میں تو احتساب کا ڈھول ڈم ڈم ہی بجتا رہا جناب زرداری اور پیپلز پارٹی کے کیحلاف .نواز لیگ کا انٹی کرپشن قانون خود آج شہباز شریف کے لیے ہی الٹا پرا ہوا ہیں.ایک جماعت جس کے احتسابی ڈھول کی تھاپ پورے ملک میں سنائی دی رہی ہیں اور لگتا ہیں یہ لوگ آے ہی اسی لیا ہیں.پاکستان تحریک انصاف نواز لیگ کے احتسابی ڈھول کو خوب بجا رہی ہیں .ایسے لگ رہا ہے جیسے اس حکومت نے کوئی اورکام نہیں کرنا صرف احتساب ہی کرنا ہیں .

احتساب سب کا ہونا چایئں.جس نے بھی اس ملک کو لوٹا ہیں ہر اس انسان کا جس نے کرپشن کی ہیں.لیکن جو یہ گورنمنٹ کر رہی ہیں وہ کئی سے بھی احتساب نہیں لگ رہا .بلکہ اسے وقت کا زیاہ کہا جائیں تواچھا ہیں.کیونکہ آج چھ ماہ ہوگیں ہیں اس حکومت کو اقتدار میں آے ہوۓ .نا ایوان بالا میں کوئی بل پیش ہوا اورنا ہی ایوان زیریں ہیں اوراگرکوئی غلطی سے پوچھ لیں تو جناب عمران خان صاحب فرماتے ہیں ہمارے پاس ایوانوں میں اکثرت نہیں ہیں.تو جناب اس کا مطلب ہیں آپ عوام کے ساتھ احتساب کا ڈرامہ کر رہے ہیں اور نیب کے ذریعے کچھ لوگوں کا جینا حرام کر رہے ہیں .آپ کس قانون کے تحت کاروباری لوگوں کے اکاؤنٹس چیک کر رہے ہیں .خیر یہ تو اس ملک کا الیمیاه  ہیں کہ عوام کوکوئی جتنا بھی تنگ کرلیں کوئی پوچھنے والا نہیں اورناعوام کو قانون کی آگاہی ہیں اورنا ہی کوئی اس حق کو جاننے کی کوشش کرتا ہیں


 گورنمنٹ کو چایئں کہ اپنی توجہ پاکستانی عوام کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں دیں.کاروباری طبقہ تو پس کررہ گیا ہیں .ڈالر کا ریٹ آپ سے کنٹرول نہیں ہو رہا.صنعت کا پہیہ توآپ کی غلط پالیسی کی نظر ہوا ہیں .آج تک تو پاکستان تحریک انصاف کی معیشی پالیسی کا ہی پتا نہیں چل سکا.سواۓ انڈے  مرغی اور کٹے پالنے کے.جبکہ عمران خان ہم کو پچھلے دس سالوں سے ایک قابل اکنامسٹ اسد عمر کا نام سنا سنا کر پاگل کیا ہوا ہیں.ہر کوئی جانتا تھا پاکستان تحریک انصاف گورنمنٹ بناۓ گی اسد عمر اقتصادی وزیر ہو گے.اس کے باوجود کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی .شروع کے چھ ماہ سے تو احتساب کا ڈھول ہی بج رہا ہیں.اور ڈھول کے اس شور میں کہی پاکستان تحریک انصاف ہی نہ گم ہو جائیں  ہم عوام کو عمران خان سے کافی امیدیں ہیں.قانون کی بلا دستی اورانصاف پاکستانی عوام کا حق ہیں.لیکن کچھ سیاسی اورغیر سیاسی طاقتیں شاید عمران خان کو یہ سب نا کرنے دیں اور وہ کچھ حد تک کامیاب نظرآ رہی ہیں.کیونکہ ظلم اور نا انصافی اس ملک کے ساتھ سب نے کی ہیں وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی. عوام کا حق سب نے لوٹا ہیں.عمران خان کی نیت میں کوئی پاکستانی ذرا برابر بھی شک نہیں کر سکتا.لیکن ان کے کچھ  وزیراور بیوروکریٹس جوخود بھی چور ہیں عمران خان اورعوام کو دھوکہ نہ دیں جائیں اور پاکستان میں احتساب اورانصاف کا جو خواب عمران خان نے پاکستانی عوام کو دکھایا ہیں وہ نام نہاد احتسابی ڈھول کی ڈم ڈم میں ادھورا ہی نا رہ جائیں کیونکہ احتساب کا جو ڈھول تحریک انصاف بجا رہی ہیں وہ وقتی ہیں.جس سے ملک کا معیشی اور سیاسی نظام کمزورہو گا اور  یہ نہ ہو فائدہ بگ باس ہی اٹھا لے پہلے کی طرح.

Wednesday, 9 January 2019

کاروباری سوچ


کاروباری سوچ


 ایک اندازے کےمطابق پاکستان میں ہرسال چارلاکھ پچاس ہزار طلبہ و طالبات ڈگری حاصل کرتے ہیں.جس کا مطلب اتنی ہی نوکریاں مہیا کرنا حکموت کا فرض ہیں.پاکستانی یونیورسٹیز اور کالجز کا نظام دیکھا جائیں تو شروع دن سے ہی آنے والے طلبه اور طالبات کواچھے نمبروں کی تلقین کرنا اور صرف وہی کچھ گائیڈ کرنا جس سے وہ زیادہ سے زیادہ نمبرز حاصل کر سکے .آج کل تو چار سالہ کورسز کی بہرمار لگی ہوئی ہیں ایک سے ایک یونیورسٹی مہنگے سے منہگا کورس ہرسال لے کرآتی ہیں.پھر کیا ہوتا ہیں جناب چوتھے سال کے آخر میں ایک چار سے چھ ماہ کی کسی ادارے میں انٹرنشپ یا پھر کوئی ریسیچ مضمون لکھ کر ڈگری ہاتھ میں اور سٹوڈنٹ گھر .پھر جاب ملے تو اچھی قسمت  نہ ملے تو الله کی مرضی .سارا الزام گورنمنٹ پر یا بچے کے کم نمبرز پر.ہماری ملک میں یونیورسٹیز صرف اکیڈمک  مضمون پڑھا کر سائیڈ پر. حلانکے ڈگری لیول پر یہ یونیورسٹی کا ہی فرض ہوتا ہیں کہ وہ وہ سٹوڈنٹز کو کاروبار کی سوچ کے لیا آگاہ کرے .بدقسمتی سے پاکستان صرف ایک یونیورسٹی لمس اپنے سٹوڈنٹس کے لیا یہ پروگرام چلا رہی ہیں باقی صرف ذیادہ سے ذیادہ انٹرشپ تک ہی ہیں.

بات کی جائیں باقی دنیا کی تو حالات بلکل برعکس ہیں یونیورسٹیز تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے طالبعلموں کو جابز اور   کاروبار دونوں کے لیا ایسے اتنظامات کرتی ہیں جیسے کہ کاروباری افراد یونیورسٹیز میں آہ کر لیکچردیتے ہیں جوطالبعلموں کی ایک اچھی حوصلہ افزائی ہوتی ہیں اور پھر کورس ورک میں ایسے کامیاب کاروباری افراد اور ان کے کاروبار کے متعلق لیکچر ہوتے ہیں جو کہ طالبعلموں کے   خیالات بدلنے میں کافی کارگر ثابت ہوتے ہیں کہ امیدوار اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے کی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر چکا  ہوتا ہیں.اور پاکستان میں طالبعلم ایک ڈگری ختم کرنے کے بعد مزید ڈگری کا سوچ لیتا ہیں .جو کہ ایک اور غلط فیصلہ ہوتا ہیں.اس سب کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی کہی جا سکتی ہیں

پاکستانی طالبعلموں میں کاروباری سوچ کا کافی فقدان ہیں وہ جابز کو کاروبار پر زیادہ اہمیت دینا پسند کرتے ہیں اور وہ بھی سرکاری نوکری کو.جس کے حصول کے لیا وہ کافی سال بھی گزر جائیں تو کوئی برائی نہیں لیک کرنی سرکاری نوکری ہی ہیں .یاد رکھے نوکری ایک خاندان اور کاروبار نسلوں کو پالتا ہیں.
 کاروبار پاکستان میں صرف بڑی انویسٹمنٹ  کا ہی نام ہیں .کوئی جنرل اسٹور، بیکری، کیفے و ریسٹورنٹ  بزنس کی لسٹ میں نہیں آتے.حلانکے کام چھوٹے سے بڑا ہوتا ہیں.لیکن یہ سب سمجھنے کے لیا کوئی راضی نہیں.پاکستان میں میں کاروباری سوچ کا فقدان اس ملک کے مستقبل کے لیا اچھا نہیں ہیں اس کا نہ ہونا ہماری معیشت کے لیا نقصان دہ بات ہیں.اپنا کام انسان کو دوسرے کی غلامی سے بچاتے ہیں اور زندگی آسان بناتا ہیں.اور اس دنیا میں ہربڑا کاروباری فرد چاہ وہ بل گیٹس ہو، ملک   ریاض یا پھر ہندوستان کے دھیرو بھائی امبانی سب کی کہانی ایک جیسی ہی ہیں.آج اگر دیکھا جائیں تو زہین اور پڑھا لکھا انسان نوکری کرتا ہیں ان کاروباری افراد کے لیا.بات صرف سوچ کی ہیں جو دو انسانوں کا مختلف کرتی ہیں مالک یا نوکر بننے کے لئے.آج کل انٹرنیٹ کا دور ہیں ہر چیز کی انفارمیشن  گوگل پر ہیں اگر آپ کو کوئی نصحیت نہی کر سکا تو جناب آپ کچھ وقت  انٹرٹینمنٹ سے ہٹ کر گوگل پر جا کر سیارچ کریں تو ہزارروں  راستے ملے جائیں گے آپ کو کاروبارکے.اور اگر اعتماد کی کمی ہیں تو کامیاب کاروباری افراد کی بائیو گرافی پڑھیں انشاللہ ضرور راستہ ملے گا آپ کو. اوراپنی ناکامی یا وقت  کے زیاہ ذمہ واری کا رونا رونے کی بجاے کوشش کریں.اصل بات کسی چیز کی قدر یا اہمیت ہوتی ہیں .ناکامی یا کامیابی انسان کی بنائی ہی سوچ ہیں     

Monday, 31 December 2018

آخری دن سال آخری دن سال کا کا

آخری دن سال کا

 
آج سال کا آخری دن پھر٢٠١٨ کبھی نہ آے گا.اوراس طرح دنیا کا ایک اورسال مکمل گیااورزمین نے ایک اورچکرپورا کر لیا. .دیکھا جاۓ تو ہرگزراوقت ہم کواحساس دلاتا ہیں انسانی زندگی کا اوراس کے گزرجانےکا.کافی انسان وقت کےاس احساس کو سمجتے ہیں اوربہت سارے پچھلے سالوں کی طرح آنے والے سال کو بھی ایسےہی گزردے گے.سھمجدارلوگ اپنے وقت کا حساب رکھتے.اپنی غلطیوں کو صیحی کرتے ہیں اوراپنی آنے والی زندگی آرامدہ کرنے کے لیا کوشش کرتے ہیں.با حثیت ایک مسلمان ہم قسمت اور نصیب پرزیاده یقین رکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی سوچ و چارسے بھی اپنی زندگی بدلنے کی کوشش میں رھتے ہیں اوربدل بھی لیتے ہیں

جس طرح انسان ذاتی زندگی کواچھا کرنے کی کوشش میں رہتا ہیں .قومی سطح پربڑے ممالک بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں .چاہے وہ معاشی،سماجی یا کاروباری سطح پر ہو.ہرچیز کا ایک منصوبہ ہوتا ہیں.جدید دنیا میں توحکومتی سطح پرایک خاص قسم کا ادارہ کام کرتا ہیں جسے ریسیچ اینڈ ڈویلپمنٹ یعنی تحقیق اورتعمیرہم اپنی زبان میں کہہ سکتے ہیں جو صرف آنے والے وقت کا استعمال کرسکے کے لیا بنایا جاتا ہیں.دورجدید کی دنیا کی اصل کامیابی کی وجہ بھی یہ منصوبہ بندی ہی ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے کرمیدان میں آگے ہیں اور وہ دنیا کو ایک نظام دے رہے ہیں.اورایسی قومیں ہی دنیا میں اپنا نام پیدا کرتی ہیں

پاکستان کی بات ہوجاۓ جو دنیا میں آبادی کے حساب سے نمبر ٨ پر ہیں.یعنی دنیا کی آٹھویں بڑی لیبرطاقت.جہاں ملک نے ایٹومک پاور حاصل کیا بھی ٣٠ سال ہو گی ہیں.جہاں ١٢٠ یونیورسٹیز ہیں ١٢٠٠٠ طلباء اورطالبات ہرسال گریجویٹس ہوتے ہیں ،جہاں کی سب سے بڑی صنعت ایگریکلچر ہیں .پھرملک میں معدنیات کے ذخائر ،پھر سیرو سیاحت  کے لیا مقامات،صحرا ،پہاڑ ،دریا،قدرتی جنگل اور لاہور ملتان سندھ اور ٹیکسلا کے قدیم عجوبے.اس کے باوجود پاکستان کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہیں.جہاں آبادی کا ٦٠% فیصد  حصہ ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھاتا.جہاں سب کچھ ہیں،لیکن بھوک اور افلاس ختم ہونے کا نام ہی نہی لے رہی.اس کی بڑی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان اور کرپشن ہیں.کچھ لوگ ملک کی دولت پر قبضہ ہیں.یہ وہ نالایق ٹولہ ہیں جو ملکی دولت کو وقت با وقت  لوٹ کر لے جاتا ہیں.جن میں تین قسم کے لوگ آرام سے دیکھے جا سکتے ہیں .خیر ہم بات  منصوبہ بندی کی کر رہے تھے .ایک وقت تھا جب ایک حکمران جسے ہم ایوب خان کے نام سے جانتے ہیں.اس نے پہلی بار پاکستان میں پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا .١٩٥٥ سے  .١٩٦٠ پھر دوسرا  پانچ سالہ منصوبہ ١٩٦٠سے ١٩٦٥.اس  پانچ سالہ منصوبہ کی وجہ سے پاکستان نے ٢٠% دولت کمائی .یعنی ٢٠%  آمدنی اضافہ کیا ،دس سالوں میں پانچ ڈیم بنے. زرعی اصلاحات ،پرائیویٹ بنکنگ  اور صنعت کو ترتیب دیا .پاکستان کا یہ پلان کاپی ہوا کوریا اور جرمنی میں .لیکن ایوب خان کے بعد پاکستان میں  پانچ سالہ منصوبے آگے نہ چل سکے .جس کی وجہ آنے والی حکموتوں کی  ذاتی رنجیشے ،عقل کی کمی اور منافقت بھی کہی جا سکتی ہیں .جس کا نتجہ آج ہم ٥٠ سال بعد بھی تیسری دنیا میں شمار کیے جاتے ہیں.ملکی ترقی کے لیا ایک قوم بننا ضروری ہیں.    

Saturday, 29 December 2018

آئس کا مزہ


آئس کا مزہ


آئس جس کا مطلب تو برف ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہم پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر برف کے رنگا رنگ لال پیلے  گولے اورفالودے میں  ڈالتے ہیں اور گرمیوںکی شدت کوٹھنڈہ کرتے ہیں .آج کل پاکستان میں گرمی ہو یا سردی ہر طرف آئس ہی آئس زیربحث ہیں.پچھلے ایک دو ہفتوں سے آئسکا چرچا خوب ہو رہا ہیں ہمارے میڈیا میں تواس آئس کو ذکر ایسے ہو رہا ہیں جیسا مارکیٹ میں کسی نئی برانڈ کی آمد ہوئی ہو.پھرکچھ دن پہلے ایک سفرمیں جب ٹیکسی ڈرائیورنے پوچھا صاحب یہ آئس کیا چیز ہیں تو جواب میں ڈرائیور سے پوچھا جناب آپ نے آئس کا نام کہا سنا تو جواب ملاکہ اسکول کی طلبہ فون پراپنی دوست سے آئس کا ذکراپنی دوست سے کر رہی تھی اوراسکول میں لانے کا بول رہی تھی .خیرگوگل سیارچ انجن پر ذرا سی جانچ پڑتال کی تو پتہ چلا یہ جو آئس ہیں وہ کوئی ٹھنڈی چیز نہیں بلکے ایک گولی ہیں جوپاکستان کے ہربڑے شہر کراچی ،لاہور، راولپنڈی،اسلام آباد سے پشاورتک مل رہی ہیں.اورھمارے طلبه اور طالبات اسکول سے لے کر کالجز اور یونیورسٹیز تک اس آئس نامی گولی کے دیوانے پن میں مبتلا ہیں.آئس ہیں کیا اور کیوں استعمال ہوتی اوراس لعنت کوکس نے متراف کروایا اس کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں
 

کرسٹل میتھ ایمفیٹامین،کرسٹل میتھ، شابو، کرسٹل گلاس، شارڈ  یہ سب آئس کے مختلف نام ہیں جو اس کو استمعال کرنے والے جانتے ہیں اورآرڈر کرتے وقت استعمال کرتے ہیں.آئس a stimulant drug  مطلب ایک محرک منشیات.لو جی جس کو ہم ٹھنڈاسمھج رہے تھے وہ تو ایک نشہ اورگولی نکلی.جس کا مطلب اور استعمال ہمارے جسم اوردماغ کے درمیان میسج کے عمل کومعمول سے تیزکرنا ہیں.جس کا باقدگی سے استعمال انسان کواس کا عادی کر دیتا ہیں .چونکہ یہ ایک سخت نشہ آور گولی ہیں تو اس کے  ضمنی اثرات زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں.یہ گولی میتھ ایمفیٹامین نامی پاؤڈر یعنی عام نشے سے  زیادہ نقصان دہ ہیں. آئس کے استمال کے مختلف عمل ہیں جیسے کہ انجیکٹ کرنا ،نگلنا،سگریٹ نوشی میں استعمال کرنا وغیرہ.ہماری سائنس اور طب اس قسم کے نشہ یا کسی بھی  اور نشے کے متعلق نرم گوشہ نہیں رکھتی.ایکسپرٹس کا خیال ہیں کہ یہ نشہ انسانی میسج سسٹم کوتیز کرنے کے ساتھ سونے کے عمل میں خلل ڈالتا ہیں.باقی اپنے پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافے کے یہ

 https://adf.org.au/drug-facts/ice/  بلاگ کا لنک ہیں .جوآپ کو 


    

Image result for ice drug


سمجنے کے لیا دیا گیاہیں
 

اب ذرا ذکر ہوجاہے ریاست کا جس کا کام عوام کی  فلاح و بہبود ہیں. ریاست ایک غیرقانونی کام  جواس کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا اور اور اب بھی ہو رہا ہیں. جس کا ذکرآج اتنا عام ہیں اور بچے بچے کی زبان پرہیں جس کا ذکر ڈاؤن  اخبار نے ٢ جون ٢٠١٧ اورڈیلی پاکستان آبزرور Daily Pakistan Observer نے ٢٠١٨ جولائی میں اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہیں .کیا یہ خبر کسی قانون نفاذ کرنے والے ادارے کی نظر سے نہیں گزاری یا اس میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں نظر آیا.کیسے ڈرگ مافیا اور پاکستان کے اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیز میں یہ نشہ بک رہا ہیں اور وہ بھی ٢٠٠٠ اور ٣٠٠٠ ہزارپاکستانی کرنسی میں.کون ہیں جو یہ نشہ ہماری ینگ نسل میں پھیلا رہا ہیں .اسلام آباد سکولز کی کنٹینز سے اس گولی کا ملنا ایک واضح ثبوت ہیں کسی کی سرپرستی کا اورسکولز کی انتظمیا کا بھی جو یا تو نظر چوراہ رہے ہیں یا پھراس جرم میں وہ بھی شریک ہیں.اس کی ضرور جانچ پڑتال ہونی ضروری ہیں.اور آج کل ھمارے قانونی ادارے اور خاص کر جناب چیف جسٹس صاحب کرپشن ،ڈیمز اور بحریہ ٹاؤن ملک ریاض کی جان چھوڑکراس طرف کچھ توجہ دیں.اپنی نئی نسل کو اس لعنت سے دورکریں یہ کرپشن سے بھی بڑا جرم ہیں. عمران خان کی حکمومت کے وفاقی وزیر  جناب آفریدی صاحب سے گذارش ہیں کہ پاکستان کے اسکول ،کالجز ،یونیورسٹیز اورکچھ و اسکول کے بچوں کےوالدین کو بھی سزا و جرمانے کریں .ٹیچرز کے ساتھ والدین بھی ذمدار ہیں.آئس جس کو ہماری نوجوان نسل صرف فن یعنی مزہ کا نام دے کر لطف و اندوز  ہو رہی ہیں.آئس مزہ نہیں ایک قاتل ہیں خاموش قاتل.
  

     .

Friday, 28 December 2018

عدالتی فیصلہ آگیا

عدالتی فیصلہ آگیا


نوازشریف پھر جیل چلےگے.جس کے ساتھ ساتھ ڈیل کی خبریں بھی دم تھوڑ گئی.جن کی بازگش فیصلے سے پہلےاسلام آباد سےآ رہی تھی.لیکن نواز شریف نے لگتا ہیں اس بار کوئی ڈیل نہ کرنا ہی بہتر سمجا اور جیل جانے کو ترجہی  دی اور ملک میں ہی رہنا بہتر سمجھا. سیاسی اعتبار سے ایک اچھا فیصلہ ہیں.اگر ڈیل ہو جاتی جوکہ حکومت کے لیا ضروری تھی .کیونکےحکومت کی اپنی کارکردگی کمزور سے کمزور ہیں .کوئی معاشی پالیسی سوا بیان بازی کے نظر نہیں ے رہی اور اپوزیشن کی ایک کال عوام کو روڈز پر لانے کے لیا  کافی ہیں اور  ویسے بھی نواز شریف صاب کا کیس دیکھ کر بھی اس کوسمجھاجا سکتا ہیں .بدعنوانی کھربوں کی اورجرمانہ اور٧ سال کی.ال-عزیزیہ اورفلیگ شپ کیس میں نوازشریف کو ٹوٹل چارارب کا جرمانہ اور سات سال کی قید بظاھر قانون اورعوام دونوں کے ساتھ مذاق سا لگتا ہیں .ایک طرف ٣٥ سال سے بدعنوانی کا الزام اورثابت صرف ٤ارب کی  بدعنوانی.احتساب عدالت کے اس فیصلےکا سراسر فاہدہ ہم عوام کوتوکچھ نہیں ہوا .البتہ عمران خان کی گورنمنٹ کو پنجاب میں کچھ سکون ضرورمل گیا ہیں .اور لگ بھی کچھ ایسا ہی رہا ہیں اورپانچ سال بعد نواز شریف صاب پھر سے ایوان اقتدار میں ہوں گۓ .اور قانون عوام اور سسٹم ویسے کا ویسا ہی رہے گا
 

نواز شریف کیس کا فیصلہ پاکستان کےعدالتی یا قانون کی کمزوری کا واضح آینہ ہیں جو آج بھی فیصلے قانونی نہی مفاہمتی کر رہا ہیں.ایسے فیصلے کسی فرد کو فاہدہ دیتے ہیں ملک یاعوام کو نہیں اور نہ ہی ملک کو ایک نظام ملتا ہیں .آج بی اسی نظام کے تحت مشرف آزاد ہیں.ڈاکٹر عاصم ٤٦٠ ارب کی کرپشن کے بعد بھی آزاد ہیں.اور پاکستان تحریک انصاف کی گورنمنٹ جو عدل و انصاف اورکرپشن سے پاک نظام کا نعرہ لگا کراقتدار کے ایوانوں میں آئی ہیں .اب تک کرپشن کے خلاف بل میں نہ لا سکی .پرامید ہیں عدالت اس کا حکم بھی جاری کرے گی .کیونکے کہ  آج کل حکم کہی سےآ کر ایوان میں پاس ہوتے