“If the book is true, it will find an audience that is meant to read it.” — Wally Lamb

“You don’t start out writing good stuff. You start out writing crap and thinking it’s good stuff, and then gradually you get better at it. That’s why I say one of the most valuable traits is persistence.” ― Octavia E. Butler

“You can always edit a bad page. You can’t edit a blank page.” ― Jodi Picoult

“Every secret of a writer’s soul, every experience of his life, every quality of his mind, is written large in his works.” — Virginia Woolf

“I can shake off everything as I write; my sorrows disappear, my courage is reborn.” — Anne Frank

Saturday, 26 January 2019

پاکستانی سیروسیاحت کا فروغ

https://democraticpost4u.blogspot.com
harapa and monjodaro
https://democraticpost4u.blogspot.com
Texila budha

پاکستانی سیروسیاحت کا فروغ


پاکستان بلاشبہ ایک خوبصورت دیس ہیں.الله پاک نے مملکت خداداد پاکستان کو بیش بہا قدرتی حسن سے نوازہ ہیں .پاکستان کے مختلف حصے ہیں جن میں جنوبی حصہ صراحی اور خشک ہیں . شمالی حصہ بلند و بلا پہاڑوں اور سرسبز ہیں .مشرق میں دریا اور مغرب میں میدان ہیں.پاکستان دنیا کے لیے مذہبی تہذہبی اور فن کے اعتبار موزو جگہ ہیں. پاکستان کے کچھ شہر جیسے کہ  لاہور ملتان بہالپور فیصل آباد جھنگ ننکانہ صاحب جلھم  چکوال گجرخان راولپنڈی ٹيکسلا حسن ابدال پشاور سوات کوئٹہ  گوادر کراچی حیدرآباد موہنجو دروہ  اور ہڑپہ  تاریحی اعتبار سے دنیا اور مختلف مذہبی فرقوں کے لیا ایک اہم جگہ ہیں.نیز پاکستان میں آثار قدیمہ کے لیا  ٹيکسلا  موہنجو دروہ  اور ہڑپہ  جیسے شہر ہیں جو تاریخ کے طلبہ اور ریسیرچرز کی توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں
پاکستان سیروسیاحت کےلئےایک بہترین جگہ ہیں.اگرماضی پرنظرڈالی جائیں توتاریخ ہم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ پاکستان کبھی دنیا کےلیا سیروسیاحت کا مرکز تھا.لاہورکی بسنت کا بہالپوراورملتان ٹورکاراور جیپ ریلی کا.پنجاب کےثقافتی لوک میلوں کااورشمالی ٹورازم کا.پاکستان ساٹھ، ستراور نوے کی دہائیوں میں ٹورازم کےلیا ایک اچھا مقام تھا. پھرجیسےاس ملک کو نظرہی لگ گئی.سرد جنگ اورپھردشت گردی کی جنگ پاکستان میں سیروسیاحت کے خاتمے کا سبب بنی. اکیسوی صدی جس میں دنیا کوگلوبل ولیج کا نام دیا گیا جہاں ٹیلی رابطوں اورانٹرنیٹ نے دنیا میں فاصلے کم کیے اورلوگوں میں رابطے بڑھے اس وقت سیاحوں کا پاکستان نا آنا دنیا میں ہماری گمنامی کا سبب بنا.پاکستانی ٹورازم کو دوسروں کی جنگ اوراپنوں کی غلطیوں وجہ سے کافی نقصان ہوااورنتجہ ہماری معیشت کے نقصان کی صورت میں دیکھنے کو ملا
https://democraticpost4u.blogspot.com
galgit baldistan
https://democraticpost4u.blogspot.com
budha  at Texlia pakistan
https://democraticpost4u.blogspot.com
polo  chatral pakistan

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے سیروسیاحت کے فروغ کے لیے ایک پالیسی مراتب کی. جس کا اعلان کچھ دن پہلے ہوا.جس میں ویزا سروس سسٹم کو نرم اور آسان کر دیا گیا .جوکےایک خوش آیند قدم ہیں .اس سے پاکستان کا ایک مثبت چہرہ دنیا کے سامنے آے گا اور وہ  لوگ جوپاکستان کوایک دشت گرد ریاست ثابت کرنے کےلیا سرگرم ہیں ناکام ہوگے.سیروسیاحت کا فروغ سے پاکستانیوں دوسرے لوگوں کے درمیان آمنا سامنا ہوگا جس سے فاصلےکم ہوگے اورغلط فہمیاں دورہوگی. سیروسیاحت کسی بھی ملک کی معیشت کوبہترکرنے میں ایک اہم کردارادا کرتی ہیں، جس کی واضح مثالیں یورپ کینیڈا,امریکا اور آسٹریلیا ہیں .جبکے مشرقی اشیا ممالک بھی اب ٹورازم کو فروغ دی رہے ہیں.آج کے دور میں سیروسیاحت ایک صنعت کے طورپرسمجی جاتی ہیں اورحکومتیں اپنے ملک کی سیروسیاحت میں سرمایا کاری کرتی ہیں.لندن سنگاپور اور کچھ دوسرے ممالک اس کی بہترین مثالیں ہیں . برطانیہ کا شہر لندن اکانومی کا جی ڈی پی ١4% سیروسیاحت سے حاصل کرتا ہیں.

سیروسیاحت بلا شبہ ایک اچھی صنعت ہیں اور پاکستان کی سالانہ آمدن میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں .حکومت کا یہ قدم  خوش آیند ہیں .لیکن اس کو کامیاب بنانے کے لیا کچھ عملی اقدامات کی ضرورت ہیں .کیوں کہ سیروسیاحت کے ساتھ اور بھی شعبے اگر کام کریں تو کامیابی ملتی ہیں جیسے کہ ریسٹورنٹ  ہوٹلز ٹرانسپورٹ  ٹورازم گائیڈ  انفارمیشن کے ذارئع سیکورٹی اورتعلیم.اگر دیکھا جائیں تو پاکستان میں سیکورٹی کا نظام  بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہیں واضح مثال ساہیوال کا واقعہ اور پچھلے سال  مری میں سیاحوں کے ساتھ  نارواه سلوک .جس کا حکومتوں نے کوئی عملی ایکشن  نہیں لیا. سیروسیاحت کے فروغ  کے لئے حکومت کو عملی اقدام کرنے ہو گے .جن میں ضروری  معلومات کو عام کرنا سیکورٹی کو بہتر کرنا  ریسٹورنٹ  اور ہوٹلز کی حالت کو بہتر کرنا  اور عوام اور پولیس کو سیاحوں سے بہتر برتاؤ کی تعلیم دینا.اگر حکومت یہ سب اقدام کرتی ہیں تو  سیروسیاحت کا یہ منصوبہ کامیاب ہو سکتا ہیں . کیونکہ پاکستانی قوم مذبی طور پر جذباتی ہیں

Sunday, 20 January 2019

الیکٹڈ یا سلیکٹڈ

الیکٹڈ یا سلیکٹڈ


سلیکٹڈ کےالفاظ پیپلزپارٹی کےشریک چیئرمین بلاول زرداری نے پہلی باروزیراعظم عمران خان کے لیےاستعمال کیے. کافی لوگوں کو ان الفاظ کی کافی دیربعد سمجھ لگی .حریف جماعتوں نے شروع دن سے ہی عمران خان کو جموری وزیراعظم نہیں سمجتھی .خیر یہ پاکستان میں ہرحریف جماعت کرتی ہیں  جو ایک غیر جموری قدر ہیں.حکومت کی چھ ماہ کی اگر کارکردگی  کو دیکھا جائیں تو صرف وعدے اورامیدیں ہی نظرآ رہی ہیں.آے دن حکومتی نمایدے ہم کو یا تو حریف جماعتوں کو جیل میں ڈالنے کی بات کرتے نظرآ رہے ہوتے ہیں اور یا پھر فلا ملک سے کچھ مالی مدد کی امید کی نوید سنا رہے ہوتے ہیں.عملی طورپرکوئی اقدام نظر نہیں آ رہے .اقتصادی وزیرچھ ماہ سےباتیں ہی کررہے ہیں.حلانکے شکل سے توکافی پڑھےلکھےاور سمجھدارمعلوم ہوتے ہیں.اور جب گورنمنٹ میں نہیں تھےتوروز ٹی وی پرمعاشیات پرلیکچرزدیتے تھے.لیکن عملی طورپرناکام اور بےبس نظرآ رہے ہیں.جبکے معیشی پالیسی بنانے میں کوئی پیسہ نہیں خرچ ہوتا.کم سے کم کوئی راہ ہی دیکھا دیں. جو ملک کومعیشی لحاظ سے مضبوط بنانے میں کارگر ثابت ہو. اس کےعلاوہ حکومت جس کام کوبڑی ایمانداری سے کر رہی ہیں وہ ہیں قبضہ گروپ کے کیحلاف آپریشن جس میں مزدورہی  مار کھا رہا ہیںاو رجعلی اکاؤنٹس والے تو ٢٠% وصولی دے کر اپنا دھن سفید کر رہے ہیں

امن و امان کی بات کی جاۓ یا حکومتی وزیروں کی تو ایسے لگ رہاکہ یہ سب تووہی ہیں جو پیپلز پارٹی  یا نوں لیگی ہیں.لیڈرشپ کا اثرتوکہی نظر نہیں آ رہا .فیاض چوہان ویسے ہی بونگیا مر رہے ہیں جیسے عابد علی مارا کرتےتھے .اور راجہ بشارت نے تو پنجاب میں رانا ثناء اللہ خان‬‎ کی یاد دلا دی.اورعمران خان نے آج تک کوئی نوٹس نہیں لیا. امن وامان کی صورت حال دیکھ کرتوڈر لگ رہا ہیں کہی کسی کی گولی کا نشانہ نہ بن جائیں اوردودن پہلے تو حد ہی ہوگئی جب لاہور سے بورے والا سفر کرتے ہوۓ ایک خاندان سیکورٹی اداروں کی گولیوں کا نشانہ بن کرجان با حق ہو گیا.اب تحقق بھی ہوگی .لیکن اتنے بڑھے حادثے پر ابھی تک کوئی بیان نظر نہیں آ یا.نہ کوئی حکومتی اور نہ ہی سیکورٹی اداروں کی طرف سے معاملہ کیا ہیں کس نے حکم دیا گولی مارنے کا اورکس نے رپورٹ کی تھی.عمران خان صاحب ،عثمان بزدار صاحب کوئی تو جواب دے.کیا قصور تھا مظلوم خاندان کا کیوں ایسے بے دردی سے مارا .عمران خان کی حکومت ہیں پنجاب ہیں جناب اگرعوام کی ووٹ سے گورنمنٹ بنائی ہیں پھر تو جواب دینا پڑے گا.ہاں اگر بقول بلاول زرداری کے سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں تو چپ رہے .آپ  کی چپ کافی ہیں سمجھنے لیا آپ کے دل کا حال.اوراگرالیکٹڈ یا منتخب ہیں تو جناب عملی اقدامات کریں ،حقیقت عوام کے سامنے لے کرآیئں .ورنہ آپ کی خاموشی بلاول کی پیش گوئی کوسچ ثابت کردے گی 

Tuesday, 15 January 2019

احتساب کا ڈھول ڈم ڈم


 احتساب کا ڈھول ڈم ڈم


ہر گورنمنٹ پاکستان میں احتساب کا کھیل کھیلتی ہیں. سواۓ پاکستان پیپلز پارٹی ہیں.دیکھا جاۓ تواس ملک میں کبھی احتساب ہوا ہی نہیں ، صرف احتساب کے نام پر ڈرامہ ہی ہوا ہیں.اوراگر پاکستان مسلم لیگ نواز نے اپنے دور میں احتساب کا بل پاس کیا ہیں اوراحتساب کیا ہیں تو وہ صرف سیاسی مخالفوں کا .وہ احتساب ذاتی تھا .اور کچھ تو اپنی طاقت کے اظہار کے کچھ نہ تھا جس کی واضح مثال١٩٩٦ کی فوجی عدالتیں جو بجلی چوری اور کرپشن کے خلاف تھیں.باقی ٢٠١٣ کی گورنمنٹ میں تو احتساب کا ڈھول ڈم ڈم ہی بجتا رہا جناب زرداری اور پیپلز پارٹی کے کیحلاف .نواز لیگ کا انٹی کرپشن قانون خود آج شہباز شریف کے لیے ہی الٹا پرا ہوا ہیں.ایک جماعت جس کے احتسابی ڈھول کی تھاپ پورے ملک میں سنائی دی رہی ہیں اور لگتا ہیں یہ لوگ آے ہی اسی لیا ہیں.پاکستان تحریک انصاف نواز لیگ کے احتسابی ڈھول کو خوب بجا رہی ہیں .ایسے لگ رہا ہے جیسے اس حکومت نے کوئی اورکام نہیں کرنا صرف احتساب ہی کرنا ہیں .

احتساب سب کا ہونا چایئں.جس نے بھی اس ملک کو لوٹا ہیں ہر اس انسان کا جس نے کرپشن کی ہیں.لیکن جو یہ گورنمنٹ کر رہی ہیں وہ کئی سے بھی احتساب نہیں لگ رہا .بلکہ اسے وقت کا زیاہ کہا جائیں تواچھا ہیں.کیونکہ آج چھ ماہ ہوگیں ہیں اس حکومت کو اقتدار میں آے ہوۓ .نا ایوان بالا میں کوئی بل پیش ہوا اورنا ہی ایوان زیریں ہیں اوراگرکوئی غلطی سے پوچھ لیں تو جناب عمران خان صاحب فرماتے ہیں ہمارے پاس ایوانوں میں اکثرت نہیں ہیں.تو جناب اس کا مطلب ہیں آپ عوام کے ساتھ احتساب کا ڈرامہ کر رہے ہیں اور نیب کے ذریعے کچھ لوگوں کا جینا حرام کر رہے ہیں .آپ کس قانون کے تحت کاروباری لوگوں کے اکاؤنٹس چیک کر رہے ہیں .خیر یہ تو اس ملک کا الیمیاه  ہیں کہ عوام کوکوئی جتنا بھی تنگ کرلیں کوئی پوچھنے والا نہیں اورناعوام کو قانون کی آگاہی ہیں اورنا ہی کوئی اس حق کو جاننے کی کوشش کرتا ہیں


 گورنمنٹ کو چایئں کہ اپنی توجہ پاکستانی عوام کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں دیں.کاروباری طبقہ تو پس کررہ گیا ہیں .ڈالر کا ریٹ آپ سے کنٹرول نہیں ہو رہا.صنعت کا پہیہ توآپ کی غلط پالیسی کی نظر ہوا ہیں .آج تک تو پاکستان تحریک انصاف کی معیشی پالیسی کا ہی پتا نہیں چل سکا.سواۓ انڈے  مرغی اور کٹے پالنے کے.جبکہ عمران خان ہم کو پچھلے دس سالوں سے ایک قابل اکنامسٹ اسد عمر کا نام سنا سنا کر پاگل کیا ہوا ہیں.ہر کوئی جانتا تھا پاکستان تحریک انصاف گورنمنٹ بناۓ گی اسد عمر اقتصادی وزیر ہو گے.اس کے باوجود کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی .شروع کے چھ ماہ سے تو احتساب کا ڈھول ہی بج رہا ہیں.اور ڈھول کے اس شور میں کہی پاکستان تحریک انصاف ہی نہ گم ہو جائیں  ہم عوام کو عمران خان سے کافی امیدیں ہیں.قانون کی بلا دستی اورانصاف پاکستانی عوام کا حق ہیں.لیکن کچھ سیاسی اورغیر سیاسی طاقتیں شاید عمران خان کو یہ سب نا کرنے دیں اور وہ کچھ حد تک کامیاب نظرآ رہی ہیں.کیونکہ ظلم اور نا انصافی اس ملک کے ساتھ سب نے کی ہیں وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی. عوام کا حق سب نے لوٹا ہیں.عمران خان کی نیت میں کوئی پاکستانی ذرا برابر بھی شک نہیں کر سکتا.لیکن ان کے کچھ  وزیراور بیوروکریٹس جوخود بھی چور ہیں عمران خان اورعوام کو دھوکہ نہ دیں جائیں اور پاکستان میں احتساب اورانصاف کا جو خواب عمران خان نے پاکستانی عوام کو دکھایا ہیں وہ نام نہاد احتسابی ڈھول کی ڈم ڈم میں ادھورا ہی نا رہ جائیں کیونکہ احتساب کا جو ڈھول تحریک انصاف بجا رہی ہیں وہ وقتی ہیں.جس سے ملک کا معیشی اور سیاسی نظام کمزورہو گا اور  یہ نہ ہو فائدہ بگ باس ہی اٹھا لے پہلے کی طرح.

Wednesday, 9 January 2019

کاروباری سوچ


کاروباری سوچ


 ایک اندازے کےمطابق پاکستان میں ہرسال چارلاکھ پچاس ہزار طلبہ و طالبات ڈگری حاصل کرتے ہیں.جس کا مطلب اتنی ہی نوکریاں مہیا کرنا حکموت کا فرض ہیں.پاکستانی یونیورسٹیز اور کالجز کا نظام دیکھا جائیں تو شروع دن سے ہی آنے والے طلبه اور طالبات کواچھے نمبروں کی تلقین کرنا اور صرف وہی کچھ گائیڈ کرنا جس سے وہ زیادہ سے زیادہ نمبرز حاصل کر سکے .آج کل تو چار سالہ کورسز کی بہرمار لگی ہوئی ہیں ایک سے ایک یونیورسٹی مہنگے سے منہگا کورس ہرسال لے کرآتی ہیں.پھر کیا ہوتا ہیں جناب چوتھے سال کے آخر میں ایک چار سے چھ ماہ کی کسی ادارے میں انٹرنشپ یا پھر کوئی ریسیچ مضمون لکھ کر ڈگری ہاتھ میں اور سٹوڈنٹ گھر .پھر جاب ملے تو اچھی قسمت  نہ ملے تو الله کی مرضی .سارا الزام گورنمنٹ پر یا بچے کے کم نمبرز پر.ہماری ملک میں یونیورسٹیز صرف اکیڈمک  مضمون پڑھا کر سائیڈ پر. حلانکے ڈگری لیول پر یہ یونیورسٹی کا ہی فرض ہوتا ہیں کہ وہ وہ سٹوڈنٹز کو کاروبار کی سوچ کے لیا آگاہ کرے .بدقسمتی سے پاکستان صرف ایک یونیورسٹی لمس اپنے سٹوڈنٹس کے لیا یہ پروگرام چلا رہی ہیں باقی صرف ذیادہ سے ذیادہ انٹرشپ تک ہی ہیں.

بات کی جائیں باقی دنیا کی تو حالات بلکل برعکس ہیں یونیورسٹیز تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے طالبعلموں کو جابز اور   کاروبار دونوں کے لیا ایسے اتنظامات کرتی ہیں جیسے کہ کاروباری افراد یونیورسٹیز میں آہ کر لیکچردیتے ہیں جوطالبعلموں کی ایک اچھی حوصلہ افزائی ہوتی ہیں اور پھر کورس ورک میں ایسے کامیاب کاروباری افراد اور ان کے کاروبار کے متعلق لیکچر ہوتے ہیں جو کہ طالبعلموں کے   خیالات بدلنے میں کافی کارگر ثابت ہوتے ہیں کہ امیدوار اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے کی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر چکا  ہوتا ہیں.اور پاکستان میں طالبعلم ایک ڈگری ختم کرنے کے بعد مزید ڈگری کا سوچ لیتا ہیں .جو کہ ایک اور غلط فیصلہ ہوتا ہیں.اس سب کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی کہی جا سکتی ہیں

پاکستانی طالبعلموں میں کاروباری سوچ کا کافی فقدان ہیں وہ جابز کو کاروبار پر زیادہ اہمیت دینا پسند کرتے ہیں اور وہ بھی سرکاری نوکری کو.جس کے حصول کے لیا وہ کافی سال بھی گزر جائیں تو کوئی برائی نہیں لیک کرنی سرکاری نوکری ہی ہیں .یاد رکھے نوکری ایک خاندان اور کاروبار نسلوں کو پالتا ہیں.
 کاروبار پاکستان میں صرف بڑی انویسٹمنٹ  کا ہی نام ہیں .کوئی جنرل اسٹور، بیکری، کیفے و ریسٹورنٹ  بزنس کی لسٹ میں نہیں آتے.حلانکے کام چھوٹے سے بڑا ہوتا ہیں.لیکن یہ سب سمجھنے کے لیا کوئی راضی نہیں.پاکستان میں میں کاروباری سوچ کا فقدان اس ملک کے مستقبل کے لیا اچھا نہیں ہیں اس کا نہ ہونا ہماری معیشت کے لیا نقصان دہ بات ہیں.اپنا کام انسان کو دوسرے کی غلامی سے بچاتے ہیں اور زندگی آسان بناتا ہیں.اور اس دنیا میں ہربڑا کاروباری فرد چاہ وہ بل گیٹس ہو، ملک   ریاض یا پھر ہندوستان کے دھیرو بھائی امبانی سب کی کہانی ایک جیسی ہی ہیں.آج اگر دیکھا جائیں تو زہین اور پڑھا لکھا انسان نوکری کرتا ہیں ان کاروباری افراد کے لیا.بات صرف سوچ کی ہیں جو دو انسانوں کا مختلف کرتی ہیں مالک یا نوکر بننے کے لئے.آج کل انٹرنیٹ کا دور ہیں ہر چیز کی انفارمیشن  گوگل پر ہیں اگر آپ کو کوئی نصحیت نہی کر سکا تو جناب آپ کچھ وقت  انٹرٹینمنٹ سے ہٹ کر گوگل پر جا کر سیارچ کریں تو ہزارروں  راستے ملے جائیں گے آپ کو کاروبارکے.اور اگر اعتماد کی کمی ہیں تو کامیاب کاروباری افراد کی بائیو گرافی پڑھیں انشاللہ ضرور راستہ ملے گا آپ کو. اوراپنی ناکامی یا وقت  کے زیاہ ذمہ واری کا رونا رونے کی بجاے کوشش کریں.اصل بات کسی چیز کی قدر یا اہمیت ہوتی ہیں .ناکامی یا کامیابی انسان کی بنائی ہی سوچ ہیں     

Monday, 31 December 2018

آخری دن سال آخری دن سال کا کا

آخری دن سال کا

 
آج سال کا آخری دن پھر٢٠١٨ کبھی نہ آے گا.اوراس طرح دنیا کا ایک اورسال مکمل گیااورزمین نے ایک اورچکرپورا کر لیا. .دیکھا جاۓ تو ہرگزراوقت ہم کواحساس دلاتا ہیں انسانی زندگی کا اوراس کے گزرجانےکا.کافی انسان وقت کےاس احساس کو سمجتے ہیں اوربہت سارے پچھلے سالوں کی طرح آنے والے سال کو بھی ایسےہی گزردے گے.سھمجدارلوگ اپنے وقت کا حساب رکھتے.اپنی غلطیوں کو صیحی کرتے ہیں اوراپنی آنے والی زندگی آرامدہ کرنے کے لیا کوشش کرتے ہیں.با حثیت ایک مسلمان ہم قسمت اور نصیب پرزیاده یقین رکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی سوچ و چارسے بھی اپنی زندگی بدلنے کی کوشش میں رھتے ہیں اوربدل بھی لیتے ہیں

جس طرح انسان ذاتی زندگی کواچھا کرنے کی کوشش میں رہتا ہیں .قومی سطح پربڑے ممالک بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں .چاہے وہ معاشی،سماجی یا کاروباری سطح پر ہو.ہرچیز کا ایک منصوبہ ہوتا ہیں.جدید دنیا میں توحکومتی سطح پرایک خاص قسم کا ادارہ کام کرتا ہیں جسے ریسیچ اینڈ ڈویلپمنٹ یعنی تحقیق اورتعمیرہم اپنی زبان میں کہہ سکتے ہیں جو صرف آنے والے وقت کا استعمال کرسکے کے لیا بنایا جاتا ہیں.دورجدید کی دنیا کی اصل کامیابی کی وجہ بھی یہ منصوبہ بندی ہی ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے کرمیدان میں آگے ہیں اور وہ دنیا کو ایک نظام دے رہے ہیں.اورایسی قومیں ہی دنیا میں اپنا نام پیدا کرتی ہیں

پاکستان کی بات ہوجاۓ جو دنیا میں آبادی کے حساب سے نمبر ٨ پر ہیں.یعنی دنیا کی آٹھویں بڑی لیبرطاقت.جہاں ملک نے ایٹومک پاور حاصل کیا بھی ٣٠ سال ہو گی ہیں.جہاں ١٢٠ یونیورسٹیز ہیں ١٢٠٠٠ طلباء اورطالبات ہرسال گریجویٹس ہوتے ہیں ،جہاں کی سب سے بڑی صنعت ایگریکلچر ہیں .پھرملک میں معدنیات کے ذخائر ،پھر سیرو سیاحت  کے لیا مقامات،صحرا ،پہاڑ ،دریا،قدرتی جنگل اور لاہور ملتان سندھ اور ٹیکسلا کے قدیم عجوبے.اس کے باوجود پاکستان کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہیں.جہاں آبادی کا ٦٠% فیصد  حصہ ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھاتا.جہاں سب کچھ ہیں،لیکن بھوک اور افلاس ختم ہونے کا نام ہی نہی لے رہی.اس کی بڑی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان اور کرپشن ہیں.کچھ لوگ ملک کی دولت پر قبضہ ہیں.یہ وہ نالایق ٹولہ ہیں جو ملکی دولت کو وقت با وقت  لوٹ کر لے جاتا ہیں.جن میں تین قسم کے لوگ آرام سے دیکھے جا سکتے ہیں .خیر ہم بات  منصوبہ بندی کی کر رہے تھے .ایک وقت تھا جب ایک حکمران جسے ہم ایوب خان کے نام سے جانتے ہیں.اس نے پہلی بار پاکستان میں پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا .١٩٥٥ سے  .١٩٦٠ پھر دوسرا  پانچ سالہ منصوبہ ١٩٦٠سے ١٩٦٥.اس  پانچ سالہ منصوبہ کی وجہ سے پاکستان نے ٢٠% دولت کمائی .یعنی ٢٠%  آمدنی اضافہ کیا ،دس سالوں میں پانچ ڈیم بنے. زرعی اصلاحات ،پرائیویٹ بنکنگ  اور صنعت کو ترتیب دیا .پاکستان کا یہ پلان کاپی ہوا کوریا اور جرمنی میں .لیکن ایوب خان کے بعد پاکستان میں  پانچ سالہ منصوبے آگے نہ چل سکے .جس کی وجہ آنے والی حکموتوں کی  ذاتی رنجیشے ،عقل کی کمی اور منافقت بھی کہی جا سکتی ہیں .جس کا نتجہ آج ہم ٥٠ سال بعد بھی تیسری دنیا میں شمار کیے جاتے ہیں.ملکی ترقی کے لیا ایک قوم بننا ضروری ہیں.