“If the book is true, it will find an audience that is meant to read it.” — Wally Lamb

“You don’t start out writing good stuff. You start out writing crap and thinking it’s good stuff, and then gradually you get better at it. That’s why I say one of the most valuable traits is persistence.” ― Octavia E. Butler

“You can always edit a bad page. You can’t edit a blank page.” ― Jodi Picoult

“Every secret of a writer’s soul, every experience of his life, every quality of his mind, is written large in his works.” — Virginia Woolf

“I can shake off everything as I write; my sorrows disappear, my courage is reborn.” — Anne Frank

Wednesday, 9 January 2019

کاروباری سوچ


کاروباری سوچ


 ایک اندازے کےمطابق پاکستان میں ہرسال چارلاکھ پچاس ہزار طلبہ و طالبات ڈگری حاصل کرتے ہیں.جس کا مطلب اتنی ہی نوکریاں مہیا کرنا حکموت کا فرض ہیں.پاکستانی یونیورسٹیز اور کالجز کا نظام دیکھا جائیں تو شروع دن سے ہی آنے والے طلبه اور طالبات کواچھے نمبروں کی تلقین کرنا اور صرف وہی کچھ گائیڈ کرنا جس سے وہ زیادہ سے زیادہ نمبرز حاصل کر سکے .آج کل تو چار سالہ کورسز کی بہرمار لگی ہوئی ہیں ایک سے ایک یونیورسٹی مہنگے سے منہگا کورس ہرسال لے کرآتی ہیں.پھر کیا ہوتا ہیں جناب چوتھے سال کے آخر میں ایک چار سے چھ ماہ کی کسی ادارے میں انٹرنشپ یا پھر کوئی ریسیچ مضمون لکھ کر ڈگری ہاتھ میں اور سٹوڈنٹ گھر .پھر جاب ملے تو اچھی قسمت  نہ ملے تو الله کی مرضی .سارا الزام گورنمنٹ پر یا بچے کے کم نمبرز پر.ہماری ملک میں یونیورسٹیز صرف اکیڈمک  مضمون پڑھا کر سائیڈ پر. حلانکے ڈگری لیول پر یہ یونیورسٹی کا ہی فرض ہوتا ہیں کہ وہ وہ سٹوڈنٹز کو کاروبار کی سوچ کے لیا آگاہ کرے .بدقسمتی سے پاکستان صرف ایک یونیورسٹی لمس اپنے سٹوڈنٹس کے لیا یہ پروگرام چلا رہی ہیں باقی صرف ذیادہ سے ذیادہ انٹرشپ تک ہی ہیں.

بات کی جائیں باقی دنیا کی تو حالات بلکل برعکس ہیں یونیورسٹیز تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے طالبعلموں کو جابز اور   کاروبار دونوں کے لیا ایسے اتنظامات کرتی ہیں جیسے کہ کاروباری افراد یونیورسٹیز میں آہ کر لیکچردیتے ہیں جوطالبعلموں کی ایک اچھی حوصلہ افزائی ہوتی ہیں اور پھر کورس ورک میں ایسے کامیاب کاروباری افراد اور ان کے کاروبار کے متعلق لیکچر ہوتے ہیں جو کہ طالبعلموں کے   خیالات بدلنے میں کافی کارگر ثابت ہوتے ہیں کہ امیدوار اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے کی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر چکا  ہوتا ہیں.اور پاکستان میں طالبعلم ایک ڈگری ختم کرنے کے بعد مزید ڈگری کا سوچ لیتا ہیں .جو کہ ایک اور غلط فیصلہ ہوتا ہیں.اس سب کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی کہی جا سکتی ہیں

پاکستانی طالبعلموں میں کاروباری سوچ کا کافی فقدان ہیں وہ جابز کو کاروبار پر زیادہ اہمیت دینا پسند کرتے ہیں اور وہ بھی سرکاری نوکری کو.جس کے حصول کے لیا وہ کافی سال بھی گزر جائیں تو کوئی برائی نہیں لیک کرنی سرکاری نوکری ہی ہیں .یاد رکھے نوکری ایک خاندان اور کاروبار نسلوں کو پالتا ہیں.
 کاروبار پاکستان میں صرف بڑی انویسٹمنٹ  کا ہی نام ہیں .کوئی جنرل اسٹور، بیکری، کیفے و ریسٹورنٹ  بزنس کی لسٹ میں نہیں آتے.حلانکے کام چھوٹے سے بڑا ہوتا ہیں.لیکن یہ سب سمجھنے کے لیا کوئی راضی نہیں.پاکستان میں میں کاروباری سوچ کا فقدان اس ملک کے مستقبل کے لیا اچھا نہیں ہیں اس کا نہ ہونا ہماری معیشت کے لیا نقصان دہ بات ہیں.اپنا کام انسان کو دوسرے کی غلامی سے بچاتے ہیں اور زندگی آسان بناتا ہیں.اور اس دنیا میں ہربڑا کاروباری فرد چاہ وہ بل گیٹس ہو، ملک   ریاض یا پھر ہندوستان کے دھیرو بھائی امبانی سب کی کہانی ایک جیسی ہی ہیں.آج اگر دیکھا جائیں تو زہین اور پڑھا لکھا انسان نوکری کرتا ہیں ان کاروباری افراد کے لیا.بات صرف سوچ کی ہیں جو دو انسانوں کا مختلف کرتی ہیں مالک یا نوکر بننے کے لئے.آج کل انٹرنیٹ کا دور ہیں ہر چیز کی انفارمیشن  گوگل پر ہیں اگر آپ کو کوئی نصحیت نہی کر سکا تو جناب آپ کچھ وقت  انٹرٹینمنٹ سے ہٹ کر گوگل پر جا کر سیارچ کریں تو ہزارروں  راستے ملے جائیں گے آپ کو کاروبارکے.اور اگر اعتماد کی کمی ہیں تو کامیاب کاروباری افراد کی بائیو گرافی پڑھیں انشاللہ ضرور راستہ ملے گا آپ کو. اوراپنی ناکامی یا وقت  کے زیاہ ذمہ واری کا رونا رونے کی بجاے کوشش کریں.اصل بات کسی چیز کی قدر یا اہمیت ہوتی ہیں .ناکامی یا کامیابی انسان کی بنائی ہی سوچ ہیں     

Monday, 31 December 2018

آخری دن سال آخری دن سال کا کا

آخری دن سال کا

 
آج سال کا آخری دن پھر٢٠١٨ کبھی نہ آے گا.اوراس طرح دنیا کا ایک اورسال مکمل گیااورزمین نے ایک اورچکرپورا کر لیا. .دیکھا جاۓ تو ہرگزراوقت ہم کواحساس دلاتا ہیں انسانی زندگی کا اوراس کے گزرجانےکا.کافی انسان وقت کےاس احساس کو سمجتے ہیں اوربہت سارے پچھلے سالوں کی طرح آنے والے سال کو بھی ایسےہی گزردے گے.سھمجدارلوگ اپنے وقت کا حساب رکھتے.اپنی غلطیوں کو صیحی کرتے ہیں اوراپنی آنے والی زندگی آرامدہ کرنے کے لیا کوشش کرتے ہیں.با حثیت ایک مسلمان ہم قسمت اور نصیب پرزیاده یقین رکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی سوچ و چارسے بھی اپنی زندگی بدلنے کی کوشش میں رھتے ہیں اوربدل بھی لیتے ہیں

جس طرح انسان ذاتی زندگی کواچھا کرنے کی کوشش میں رہتا ہیں .قومی سطح پربڑے ممالک بھی منصوبہ بندی کرتے ہیں .چاہے وہ معاشی،سماجی یا کاروباری سطح پر ہو.ہرچیز کا ایک منصوبہ ہوتا ہیں.جدید دنیا میں توحکومتی سطح پرایک خاص قسم کا ادارہ کام کرتا ہیں جسے ریسیچ اینڈ ڈویلپمنٹ یعنی تحقیق اورتعمیرہم اپنی زبان میں کہہ سکتے ہیں جو صرف آنے والے وقت کا استعمال کرسکے کے لیا بنایا جاتا ہیں.دورجدید کی دنیا کی اصل کامیابی کی وجہ بھی یہ منصوبہ بندی ہی ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی کے کرمیدان میں آگے ہیں اور وہ دنیا کو ایک نظام دے رہے ہیں.اورایسی قومیں ہی دنیا میں اپنا نام پیدا کرتی ہیں

پاکستان کی بات ہوجاۓ جو دنیا میں آبادی کے حساب سے نمبر ٨ پر ہیں.یعنی دنیا کی آٹھویں بڑی لیبرطاقت.جہاں ملک نے ایٹومک پاور حاصل کیا بھی ٣٠ سال ہو گی ہیں.جہاں ١٢٠ یونیورسٹیز ہیں ١٢٠٠٠ طلباء اورطالبات ہرسال گریجویٹس ہوتے ہیں ،جہاں کی سب سے بڑی صنعت ایگریکلچر ہیں .پھرملک میں معدنیات کے ذخائر ،پھر سیرو سیاحت  کے لیا مقامات،صحرا ،پہاڑ ،دریا،قدرتی جنگل اور لاہور ملتان سندھ اور ٹیکسلا کے قدیم عجوبے.اس کے باوجود پاکستان کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہیں.جہاں آبادی کا ٦٠% فیصد  حصہ ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھاتا.جہاں سب کچھ ہیں،لیکن بھوک اور افلاس ختم ہونے کا نام ہی نہی لے رہی.اس کی بڑی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان اور کرپشن ہیں.کچھ لوگ ملک کی دولت پر قبضہ ہیں.یہ وہ نالایق ٹولہ ہیں جو ملکی دولت کو وقت با وقت  لوٹ کر لے جاتا ہیں.جن میں تین قسم کے لوگ آرام سے دیکھے جا سکتے ہیں .خیر ہم بات  منصوبہ بندی کی کر رہے تھے .ایک وقت تھا جب ایک حکمران جسے ہم ایوب خان کے نام سے جانتے ہیں.اس نے پہلی بار پاکستان میں پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا .١٩٥٥ سے  .١٩٦٠ پھر دوسرا  پانچ سالہ منصوبہ ١٩٦٠سے ١٩٦٥.اس  پانچ سالہ منصوبہ کی وجہ سے پاکستان نے ٢٠% دولت کمائی .یعنی ٢٠%  آمدنی اضافہ کیا ،دس سالوں میں پانچ ڈیم بنے. زرعی اصلاحات ،پرائیویٹ بنکنگ  اور صنعت کو ترتیب دیا .پاکستان کا یہ پلان کاپی ہوا کوریا اور جرمنی میں .لیکن ایوب خان کے بعد پاکستان میں  پانچ سالہ منصوبے آگے نہ چل سکے .جس کی وجہ آنے والی حکموتوں کی  ذاتی رنجیشے ،عقل کی کمی اور منافقت بھی کہی جا سکتی ہیں .جس کا نتجہ آج ہم ٥٠ سال بعد بھی تیسری دنیا میں شمار کیے جاتے ہیں.ملکی ترقی کے لیا ایک قوم بننا ضروری ہیں.    

Saturday, 29 December 2018

آئس کا مزہ


آئس کا مزہ


آئس جس کا مطلب تو برف ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہم پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر برف کے رنگا رنگ لال پیلے  گولے اورفالودے میں  ڈالتے ہیں اور گرمیوںکی شدت کوٹھنڈہ کرتے ہیں .آج کل پاکستان میں گرمی ہو یا سردی ہر طرف آئس ہی آئس زیربحث ہیں.پچھلے ایک دو ہفتوں سے آئسکا چرچا خوب ہو رہا ہیں ہمارے میڈیا میں تواس آئس کو ذکر ایسے ہو رہا ہیں جیسا مارکیٹ میں کسی نئی برانڈ کی آمد ہوئی ہو.پھرکچھ دن پہلے ایک سفرمیں جب ٹیکسی ڈرائیورنے پوچھا صاحب یہ آئس کیا چیز ہیں تو جواب میں ڈرائیور سے پوچھا جناب آپ نے آئس کا نام کہا سنا تو جواب ملاکہ اسکول کی طلبہ فون پراپنی دوست سے آئس کا ذکراپنی دوست سے کر رہی تھی اوراسکول میں لانے کا بول رہی تھی .خیرگوگل سیارچ انجن پر ذرا سی جانچ پڑتال کی تو پتہ چلا یہ جو آئس ہیں وہ کوئی ٹھنڈی چیز نہیں بلکے ایک گولی ہیں جوپاکستان کے ہربڑے شہر کراچی ،لاہور، راولپنڈی،اسلام آباد سے پشاورتک مل رہی ہیں.اورھمارے طلبه اور طالبات اسکول سے لے کر کالجز اور یونیورسٹیز تک اس آئس نامی گولی کے دیوانے پن میں مبتلا ہیں.آئس ہیں کیا اور کیوں استعمال ہوتی اوراس لعنت کوکس نے متراف کروایا اس کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں
 

کرسٹل میتھ ایمفیٹامین،کرسٹل میتھ، شابو، کرسٹل گلاس، شارڈ  یہ سب آئس کے مختلف نام ہیں جو اس کو استمعال کرنے والے جانتے ہیں اورآرڈر کرتے وقت استعمال کرتے ہیں.آئس a stimulant drug  مطلب ایک محرک منشیات.لو جی جس کو ہم ٹھنڈاسمھج رہے تھے وہ تو ایک نشہ اورگولی نکلی.جس کا مطلب اور استعمال ہمارے جسم اوردماغ کے درمیان میسج کے عمل کومعمول سے تیزکرنا ہیں.جس کا باقدگی سے استعمال انسان کواس کا عادی کر دیتا ہیں .چونکہ یہ ایک سخت نشہ آور گولی ہیں تو اس کے  ضمنی اثرات زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں.یہ گولی میتھ ایمفیٹامین نامی پاؤڈر یعنی عام نشے سے  زیادہ نقصان دہ ہیں. آئس کے استمال کے مختلف عمل ہیں جیسے کہ انجیکٹ کرنا ،نگلنا،سگریٹ نوشی میں استعمال کرنا وغیرہ.ہماری سائنس اور طب اس قسم کے نشہ یا کسی بھی  اور نشے کے متعلق نرم گوشہ نہیں رکھتی.ایکسپرٹس کا خیال ہیں کہ یہ نشہ انسانی میسج سسٹم کوتیز کرنے کے ساتھ سونے کے عمل میں خلل ڈالتا ہیں.باقی اپنے پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافے کے یہ

 https://adf.org.au/drug-facts/ice/  بلاگ کا لنک ہیں .جوآپ کو 


    

Image result for ice drug


سمجنے کے لیا دیا گیاہیں
 

اب ذرا ذکر ہوجاہے ریاست کا جس کا کام عوام کی  فلاح و بہبود ہیں. ریاست ایک غیرقانونی کام  جواس کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا اور اور اب بھی ہو رہا ہیں. جس کا ذکرآج اتنا عام ہیں اور بچے بچے کی زبان پرہیں جس کا ذکر ڈاؤن  اخبار نے ٢ جون ٢٠١٧ اورڈیلی پاکستان آبزرور Daily Pakistan Observer نے ٢٠١٨ جولائی میں اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہیں .کیا یہ خبر کسی قانون نفاذ کرنے والے ادارے کی نظر سے نہیں گزاری یا اس میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں نظر آیا.کیسے ڈرگ مافیا اور پاکستان کے اسکول ،کالجز اور یونیورسٹیز میں یہ نشہ بک رہا ہیں اور وہ بھی ٢٠٠٠ اور ٣٠٠٠ ہزارپاکستانی کرنسی میں.کون ہیں جو یہ نشہ ہماری ینگ نسل میں پھیلا رہا ہیں .اسلام آباد سکولز کی کنٹینز سے اس گولی کا ملنا ایک واضح ثبوت ہیں کسی کی سرپرستی کا اورسکولز کی انتظمیا کا بھی جو یا تو نظر چوراہ رہے ہیں یا پھراس جرم میں وہ بھی شریک ہیں.اس کی ضرور جانچ پڑتال ہونی ضروری ہیں.اور آج کل ھمارے قانونی ادارے اور خاص کر جناب چیف جسٹس صاحب کرپشن ،ڈیمز اور بحریہ ٹاؤن ملک ریاض کی جان چھوڑکراس طرف کچھ توجہ دیں.اپنی نئی نسل کو اس لعنت سے دورکریں یہ کرپشن سے بھی بڑا جرم ہیں. عمران خان کی حکمومت کے وفاقی وزیر  جناب آفریدی صاحب سے گذارش ہیں کہ پاکستان کے اسکول ،کالجز ،یونیورسٹیز اورکچھ و اسکول کے بچوں کےوالدین کو بھی سزا و جرمانے کریں .ٹیچرز کے ساتھ والدین بھی ذمدار ہیں.آئس جس کو ہماری نوجوان نسل صرف فن یعنی مزہ کا نام دے کر لطف و اندوز  ہو رہی ہیں.آئس مزہ نہیں ایک قاتل ہیں خاموش قاتل.
  

     .

Friday, 28 December 2018

عدالتی فیصلہ آگیا

عدالتی فیصلہ آگیا


نوازشریف پھر جیل چلےگے.جس کے ساتھ ساتھ ڈیل کی خبریں بھی دم تھوڑ گئی.جن کی بازگش فیصلے سے پہلےاسلام آباد سےآ رہی تھی.لیکن نواز شریف نے لگتا ہیں اس بار کوئی ڈیل نہ کرنا ہی بہتر سمجا اور جیل جانے کو ترجہی  دی اور ملک میں ہی رہنا بہتر سمجھا. سیاسی اعتبار سے ایک اچھا فیصلہ ہیں.اگر ڈیل ہو جاتی جوکہ حکومت کے لیا ضروری تھی .کیونکےحکومت کی اپنی کارکردگی کمزور سے کمزور ہیں .کوئی معاشی پالیسی سوا بیان بازی کے نظر نہیں ے رہی اور اپوزیشن کی ایک کال عوام کو روڈز پر لانے کے لیا  کافی ہیں اور  ویسے بھی نواز شریف صاب کا کیس دیکھ کر بھی اس کوسمجھاجا سکتا ہیں .بدعنوانی کھربوں کی اورجرمانہ اور٧ سال کی.ال-عزیزیہ اورفلیگ شپ کیس میں نوازشریف کو ٹوٹل چارارب کا جرمانہ اور سات سال کی قید بظاھر قانون اورعوام دونوں کے ساتھ مذاق سا لگتا ہیں .ایک طرف ٣٥ سال سے بدعنوانی کا الزام اورثابت صرف ٤ارب کی  بدعنوانی.احتساب عدالت کے اس فیصلےکا سراسر فاہدہ ہم عوام کوتوکچھ نہیں ہوا .البتہ عمران خان کی گورنمنٹ کو پنجاب میں کچھ سکون ضرورمل گیا ہیں .اور لگ بھی کچھ ایسا ہی رہا ہیں اورپانچ سال بعد نواز شریف صاب پھر سے ایوان اقتدار میں ہوں گۓ .اور قانون عوام اور سسٹم ویسے کا ویسا ہی رہے گا
 

نواز شریف کیس کا فیصلہ پاکستان کےعدالتی یا قانون کی کمزوری کا واضح آینہ ہیں جو آج بھی فیصلے قانونی نہی مفاہمتی کر رہا ہیں.ایسے فیصلے کسی فرد کو فاہدہ دیتے ہیں ملک یاعوام کو نہیں اور نہ ہی ملک کو ایک نظام ملتا ہیں .آج بی اسی نظام کے تحت مشرف آزاد ہیں.ڈاکٹر عاصم ٤٦٠ ارب کی کرپشن کے بعد بھی آزاد ہیں.اور پاکستان تحریک انصاف کی گورنمنٹ جو عدل و انصاف اورکرپشن سے پاک نظام کا نعرہ لگا کراقتدار کے ایوانوں میں آئی ہیں .اب تک کرپشن کے خلاف بل میں نہ لا سکی .پرامید ہیں عدالت اس کا حکم بھی جاری کرے گی .کیونکے کہ  آج کل حکم کہی سےآ کر ایوان میں پاس ہوتے

Monday, 24 December 2018

گلگت کی آواز

گلگت کی آواز

     
گلگت بلتستان کو صوبہ کا حق پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ملا.گلگت بلتستان کی حدود کو دیکھا جاتے تو یہ پاکستان کے شمال میں ایک خوبصورت وادی ہیں جس کا منزل دلکش ہیں.بلند و بلا پہاڑ اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے  ہیں.ہر وہ جگہ جہاں پہاڑ ہو برف باری ہو .وہ ایریا ویسے بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوتا ہیں .سردیوں میں سخت سردی ہوتی ہیں اور گرمی میں تو ایسے علاقے پانی کے شور سے  اور موسّم میں سردی کی شدت کمی کی وجہ سے رہنے کے لیا خوش گوار  اور صحت افزا تصور کیے جاتے ہیں

گلگت بلتستان کی آبادی آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتی ہیں اور باقی کچھ شیعہ اور سنی بھی آباد ہیں گلگت کو ایسے  انتظمی بنیاد کی  وجہ  سے خود مختار کیا گیا تھا .جبکے دکھا جائیں تو اس خود مختاری کا عوام کی حالت زار پر کوئی خاص فرق نہیں پڑہ.عوام کی حالت اب بھی نہیں بدلی .آج بھی گورنمنٹ کے اسکول فنڈ کی کمی کی وجہ سے نہ چلنے کے قبل ہیں اور ہسپتال لوں کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہیں .جو ہسپتال آغا خان کی فنڈنگ سے چل رہے ہیں.ایسا لگتا ہیں جیسے گلگت بلتستان آغا خان کی ذاتی جاگیر ہو.یہ کام  گورنمنٹ کا ہیں نہ کے آغا خان کا.اگر آغا خان نے ہی سب کچھ کرنا ہیں تو پھر اختیار بھی آغا خان کو ہی دی دیا جائیں.

گلگت بلتستان جو کہ ایک سیرو سیاحت کے لیا پرفضا مقام ہیں حکومت کی غلفت کی وجہ سے اپنی حیشت دن با دن کھوتا جا رہا ہیں ویسے بھی  بقول عمران خان کہ ہم کو ملک کے دولت اکھٹی کرنی ہیں تو جناب ٹورازم آپ کو جتنی دولت دی سکتا ہیں اپ مانگ کر نہیں پوری کر سکتے .گلگت کا شندورمیلا جس میں پولو کا کھیل کافی مہشور ہیں اورعالمی سطح اپنی پہچان رکھتا اور دنیا بھر کے ٹورسٹس سال بھر اس کے شروع ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں .گورنمنٹ ہ پاکستان کے اس حصے کو اپنا سمجے اوراس ایریا کو ڈیولپ کریں .یہ ایریا پاکستان کے ٹورازم کو  آگے لے جا سکتا ہیں .گرمیوں میں اس جگہ خوب چہل پہل ہوتی ہیں .یہاں ٹورازم کو ترقی دی  جائیں یہاں ڈویلپمنٹ کے پروجیکٹ  کیا جائیں.اگر روڈ کا نظام صیحی ہو گا اسکول بنے گے ہسپتال ہو گے تو فائدہ عوام اور پاکستان دونوں کا ہیں .یہ تھوڑی سی انویسٹمنٹ  انڈوں اور کٹوں سے بھی اچھا منافع دیں گیی. علمی ٹورسٹ  کو جب ٹور میں  کوئی چیز اچھی لگے تو وہ اس کا ذکر  آگے ١٠ لوگوں سے کرتے ہیں .جو ہمارے اس  ایریا کو پروموٹے کرنے  لیا ایک اچھی کاوش  ہو سکتی ہیں .حکومت کو اس علاقے کی ترقی کا فوری سوچنا ہو گا نہ صرف  اس کا بلکے ہراس علاقے کا جہاں سیرو سیاحت کی جاسکتی ہیں