“If the book is true, it will find an audience that is meant to read it.” — Wally Lamb

“You don’t start out writing good stuff. You start out writing crap and thinking it’s good stuff, and then gradually you get better at it. That’s why I say one of the most valuable traits is persistence.” ― Octavia E. Butler

“You can always edit a bad page. You can’t edit a blank page.” ― Jodi Picoult

“Every secret of a writer’s soul, every experience of his life, every quality of his mind, is written large in his works.” — Virginia Woolf

“I can shake off everything as I write; my sorrows disappear, my courage is reborn.” — Anne Frank

Monday, 24 December 2018

گلگت کی آواز

گلگت کی آواز

     
گلگت بلتستان کو صوبہ کا حق پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ملا.گلگت بلتستان کی حدود کو دیکھا جاتے تو یہ پاکستان کے شمال میں ایک خوبصورت وادی ہیں جس کا منزل دلکش ہیں.بلند و بلا پہاڑ اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے  ہیں.ہر وہ جگہ جہاں پہاڑ ہو برف باری ہو .وہ ایریا ویسے بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوتا ہیں .سردیوں میں سخت سردی ہوتی ہیں اور گرمی میں تو ایسے علاقے پانی کے شور سے  اور موسّم میں سردی کی شدت کمی کی وجہ سے رہنے کے لیا خوش گوار  اور صحت افزا تصور کیے جاتے ہیں

گلگت بلتستان کی آبادی آغا خانی فرقے سے تعلق رکھتی ہیں اور باقی کچھ شیعہ اور سنی بھی آباد ہیں گلگت کو ایسے  انتظمی بنیاد کی  وجہ  سے خود مختار کیا گیا تھا .جبکے دکھا جائیں تو اس خود مختاری کا عوام کی حالت زار پر کوئی خاص فرق نہیں پڑہ.عوام کی حالت اب بھی نہیں بدلی .آج بھی گورنمنٹ کے اسکول فنڈ کی کمی کی وجہ سے نہ چلنے کے قبل ہیں اور ہسپتال لوں کی حالت بھی غیر تسلی بخش ہیں .جو ہسپتال آغا خان کی فنڈنگ سے چل رہے ہیں.ایسا لگتا ہیں جیسے گلگت بلتستان آغا خان کی ذاتی جاگیر ہو.یہ کام  گورنمنٹ کا ہیں نہ کے آغا خان کا.اگر آغا خان نے ہی سب کچھ کرنا ہیں تو پھر اختیار بھی آغا خان کو ہی دی دیا جائیں.

گلگت بلتستان جو کہ ایک سیرو سیاحت کے لیا پرفضا مقام ہیں حکومت کی غلفت کی وجہ سے اپنی حیشت دن با دن کھوتا جا رہا ہیں ویسے بھی  بقول عمران خان کہ ہم کو ملک کے دولت اکھٹی کرنی ہیں تو جناب ٹورازم آپ کو جتنی دولت دی سکتا ہیں اپ مانگ کر نہیں پوری کر سکتے .گلگت کا شندورمیلا جس میں پولو کا کھیل کافی مہشور ہیں اورعالمی سطح اپنی پہچان رکھتا اور دنیا بھر کے ٹورسٹس سال بھر اس کے شروع ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں .گورنمنٹ ہ پاکستان کے اس حصے کو اپنا سمجے اوراس ایریا کو ڈیولپ کریں .یہ ایریا پاکستان کے ٹورازم کو  آگے لے جا سکتا ہیں .گرمیوں میں اس جگہ خوب چہل پہل ہوتی ہیں .یہاں ٹورازم کو ترقی دی  جائیں یہاں ڈویلپمنٹ کے پروجیکٹ  کیا جائیں.اگر روڈ کا نظام صیحی ہو گا اسکول بنے گے ہسپتال ہو گے تو فائدہ عوام اور پاکستان دونوں کا ہیں .یہ تھوڑی سی انویسٹمنٹ  انڈوں اور کٹوں سے بھی اچھا منافع دیں گیی. علمی ٹورسٹ  کو جب ٹور میں  کوئی چیز اچھی لگے تو وہ اس کا ذکر  آگے ١٠ لوگوں سے کرتے ہیں .جو ہمارے اس  ایریا کو پروموٹے کرنے  لیا ایک اچھی کاوش  ہو سکتی ہیں .حکومت کو اس علاقے کی ترقی کا فوری سوچنا ہو گا نہ صرف  اس کا بلکے ہراس علاقے کا جہاں سیرو سیاحت کی جاسکتی ہیں

Saturday, 22 December 2018

لو پھرآئی بسنت


Image result for pakistani kites
 Image result for pakistani kites

                                                                                                                                                          

لو پھرآئی بسنت

بسنت یعنی کے پتنگ بازی .پتنگ بازی پنجاب کا ایک کلچرل تہوار ہیں .جو ہندوستان کا پنجاب ہو یا پاکستانی پنجاب دونوں اطرف میں بڑھے شوق اور  جذبے سے موسم بہارکےشروع میں منایا جانا شروع ہو جاتا ہیں.رنگ برنگ کی پتنگیں نیلےآسمان کواور بھی خوبصورت اوردلکش بنا دیتی ہیں.بسنت یا پتنگ بازی کا رواج پنجاب میں مھراجہ رنجیت سنگھ کے دورہ بادشاہت میں شروع ہوا.رنجیت سنگھ اوراس کی بیوی بڑے اتہمام سے بسنت مناتے.اس دن رنگ برنگ کے کپڑے پہنے جاتے.طرح طرح کے پکوان پکاے جاتےاورلوگ سارادن پتنگ بازی کرتے.یوں پتنگ بازی کا یہ تہواررنجیت سنگھ کےبعد بھی پنجاب میں جاری رہااورآج تک اسی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہیں

 


پنجاب کی تقسیم کے بعد بسنت بھی تقسیم ہوگیی ہندوستانی اورپاکستانی پنجاب میں اورلاہورکےعلاوہ قصور،گجراوالا، سیلکوٹ ،گجرخان،راولپنڈی اورپشاورمیں خصوصی طور پر پورے موسم بہارمیں بسنت کا تہوارمنایا جاتا.لاہورنے پتنگ بازی میں خاصی پہچان حاصل کی.اسی اورنوے کی دہائی میں بسنت کے تہوار نے پاکستان اورلاہور کودنیا بھر میں پہچان دی.اورلاہور بسنت کے تہوار سے دنیا بھرمیں جانا جانے لگا.بسنت کے تہوار نے دنیا بھر کے پاکستانیوں اورغیر ملکیوں کی توجہ کو متوجہ کیا. بسنت کے تہوار نے نہ صرف پاکستان کوایک پیچان دی بلکے اس سے پاکستان کی دوسری انڈسٹریز جیسا کہ ہوٹلنگ اور کھانے پینے کوبھی فائدہ دیا.ایک وقت تھا جب مارچ کا پورا مہینہ لاہورسیاہؤں سے بھرا ریتا.پھر یوں ھوا اس تہوارکو شاید کسی سازش کے تحت ناکام کر دیا گیا اوریوں بسنت کےتہوارپرپاکستانی عدالت نے پابندی لگا دی.

 ہماری عدالت نے اس بسنت کے تہوار پر٢٠٠٩ میں جان لیوا تہوارقرا دے کر پابندی لگا دی .بسنت کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بٹھے .کچھ جانیں گی اور یوں ٣٠٠ سالہ بسنت کا تہوار جس نے لاہورکوایک پہچان دی وہ گورنمنٹ اور کچھ انسانی اور منافع خور لوگوں کی وجہ سے ختم ہو گیا .یہ بات بلکل صیحی ہیں کچھ شک نہیں انسانی جان کی قیمت کسی بھی اور چیز سے زیادہ نہیں ہیں.لیکن اگر دیکھا جاہے توعدالت پنجاب گورنمنٹ کو بھی حکم دے سکتی تھی.پتنگ بازی کوایک محفوظ تہوار بنانے میں اورامن وامان کوقائم رکھنا میں. ریاست  کا کام ہی ہوتا ہیں عوام کے کاروبار کو تحفظ دینا .اگر دیکھا جائیں تولاکھوں لوگ اس کاروبار سے جڑے ہوۓ تھے.اس پابندی سے کافی لوگ بے روزگار ہوۓ .نہ صرف لوگ باروزگار ہوۓ بلکہ وہ سیاح جو ہر سال صرف بسنت کا تہوار منانےلاہور آتے تھے وہ سلسلہ بھی تمام ہوا.اور یوں جولاہورعالمی دنیا کی توجہ کا مرکز تھا.ہماری گورنمنٹ آف پنجاب کی بری انتظمیہ کی وجہ سے زوال پذیرہو گیا.اوراگرلاہورہائی کورٹ کچھ دیر کی پابندی کے ساتھ گورنمنٹ کو حفاظتی اقدامات کا نوٹس دیتی تو یہ تہوار آج اپنی پوری شان سے ماجود ہوتا اور ہماری ٹورازم کی صنعت کو پروان چھاڑاتا


اگرآپ کوپتنگ بازی کا شوق ہیں توآپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ گورنمنٹ نے اس سال بسنت کو منانے کا حکم دے دیا ہیں اوراس سال لاہوراور پنجاب والے پتنگ بازی کریں گے. جوکہ ایک خوش آیںد بات ہیں اورایک اچھا فیصلہ ہو سکتا ہیں.یہ فیصلہ خوش آیںد ہو سکتا ہیں اگر ہم عوام پتنگ بازی میں ایک خاص دھاگہ جو کسی زمانے صرف پتنگ کے لیا استعمال ہوتا  تھا وہی کریں اور وہ جان لیوا جسے کیمکل دھاگہ بولتے  ہیں  اس کو نہ استعمال کریں اوراب گورنمنٹ کو بھی اب پتنگبازی کے قواعد و ضوابط  مراتب کریں.تو کوئی وجہ نہیں کہ بسنت پھر سے ایک  کامیاب تہوار کے طور پر لاہوراور پاکستان کو دنیا میں متراف کروادے .یہ صرف ممکن ہیں اگر ہم عوام اور گورنمنٹ مل کر اسے کامیاب  کریں .اس سے ہماری بہت سی انڈسٹریزچلنا شروح ہو جائیں گی اور اس سے ہماری ٹورازم انڈسٹری بھی آگے بڑھے گی

Tuesday, 18 December 2018

مکیش امبانی ایک رول ماڈل















  مکیش امبانی ایک رول ماڈل

 
ریلائنس کمپنی کا نام بہت بار سنانے کو ملا ہندستان کے مختلف ٹی وی چینلزپرلیکن کبھی یہ جانے کی کوشش نہیں کی کہ اس کا مالک کون ہیں.یہ کیا کام کرتے ہیں ان کے کاروبار کی نوعیت کیا ہیں پھر ٢٠١٠ میں  تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا اتفاق ہوا.انگلستان  کی ایک سرد صبح جب لیکچرہال پہنچا تو استاد نے ایک کیس اسٹڈی دیا جوکے دھیرو بھائی امبانی کی ریلائنس کمپنی کے بارے میں تھا.گھرآ کر جب گہرائی میں پڑھا. میں تودھیرو بھائی امبانی کی کاروباری جدوجہدسے کافی متاثر ہوا.ایک انسان جب کسی کام کی ٹھان لیتا ہیں توکامیابی پھراس کا نصیب بن جاتی ہیں.یہ سنا تھا پردھیرو بھائی امبانی کی کاروباری کہانی اس بات کو حقیقی روپ دیتی ہیں. دھیرو بھائی امبانی نے  سترہ سال کی عمر میں کلرک کی نوکری کی اور پھرکچھ ہی عرصے میں چھوڑ کر واپس ممبئی آ گۓ .١ ہزار روپیہ سے ایک کاروبار شروع کیا.١٩٧٥ میں ریلائنس  کمپنی بنائی .دھیرو بھائی امبانی صرف ٢٧ سال کی محنت نے ریلائنس  کودنیا کی ٹاپ ١٠٠ کی لسٹ میں لے آے .اور امبانی صھاب ایشیا  کے ٹاپ ٥٠ کاروباری آفراد کی لسٹ میں جگہ بنا لئ . ٢٠٠٢ میں دھیرو بھائی امبانی اس دنیا سے رخصت ہوۓ تو ریلائنس کمپنی کی  مالیھیت ٦ ارب ڈالرز تھی.کمپنی کے چلانے کے لیے  امبانی کے بڑھے بیٹے مکیش امبانی آگے آے اور کمپنی کو سنبھلا 

.مکیش امبانی نے بزنس اسٹڈیز میں ماسٹرز ڈگری امریکا سے حاصل کی. اور کم عمری میں  اپنی ہی کمپنی میں کام شروع کیا.ریلائنس  کمپنی  نے شروع میں رفیننگ ،پیٹروکیمیکل ،تیل اور گیس کے شبہ میں کام کر رہی تھی .مکیش امبانی  نے کاروبار کوپھیالا اور ٹیلی کمیونیکشن میں بھی انویسٹمنٹ کی.٢٠١٦ صرف ١٥ سال میں ریلائنس  کمپنی انڈیا کی ٹاپ ٥  کمپنی لسٹ میں آ گیئ .آج  مکیش امبانی انڈیا کا نمبر ایک امیر انسان ہیں اور ایشیا کا ٤٣ نمبرامیرانسان ہیں.آج ریلائنس  کمپنی کی مالیت ٦٠بلین$ ہیں.دھیرو بھائی امبانی کامیابی کے  لیا محنت، سخت خطرناک فیصلوں پر یقین رکھتے تھے جب کہ مکیش امبانی وقت پرکام کو ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں یہی ان  کی کامیابی کا راز ہیں.آج کے ہندوستاں  کی معیشت کو مضبوط بناںے میں ریلائنس  کمپنی کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا  جا سکتا ہیں کہ جو گیس کا یونٹ ٨$ میں لگتا ہیں وہ یہ کمپنی ١$ میں فراہم کرتی ہیں.اسی ہفتے مکیش امبانی کی بیٹی کی شادی ہوئی جو دنیا کی دوسری مہنگی ترین شادی میں گنی جاتی ہیں .امبانی خاندان تیسری دنیا کے کاروباری افراد کے لیا ایک رول ماڈل ہیں جوامنداری سے کاروبار کر رہے ہیں اور ملکی ترقی کے لیا اپنا سرمایہ  کم کر کے معیشت کو مضبوط بنا رہے
 

Sunday, 16 December 2018

چوٹی سی بات












عدالت انصاف  جلدی کرو

    چوٹی سی بات


ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن  پچھلےایک سال سے چیف جسٹس کے کمرہ عدالت میں لٹکا ہوا ہیں .بحریہ ٹاؤن پر ناجائز زمین کےقبضہ اورتعمیرات کا الزام  ہیں.آج ایک طرف ملک ریاض کا کیس ہے اور دوسری طرف اسی عدالت نےایک اوراس جیسے کیس میں آج کے پرائم منسٹر جناب عمران خان کوان کےغیر قانونی گھرکو تھوڑے سے جرمانہ دینے پرلیگل کردیا. دوایک جیسےکیسزمیں مختلف فیصلے پاکستانی عدالتی نظام کی مضبوطی کا خاکہ پیش کر رہے ہیں .بحریہ ٹاؤن جس کو ملک ریاض اور انتظمیاں پچھلے ٢٣ سال سے کامیابی سے چلا رہے ہیں.بحریہ ٹاؤن اب ملک ریاض کا ہی نہیں بلکہ یہ اب ایک ادارہ ہیں ایک  برانڈ  ہیں.جس میں پاکستان اور پاکستان سے باھر رہنے والوں کا سرمایا  لگا ہوا ہیں جو ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا حصہ دال رہا ہیں. بحریہ ٹاؤن میں لاکھوں لوگ کاروبار کر رہے ہیں .ان میں کافی جاب پیشہ بھی ہیں.اب اگر عدالت یا گورنمنٹ کے پاس اتنے ذارئع ہیں کہ وہ ان لوگوں کوجابزدیں گی .بقول عمران خان کے وہ ٥٠ لاکھ گھر دیں گے پانچ  سالوں میں .جناب جو گھر دیں رہا ہے  اسے تو کام کرنے دیں.باقی رہی  بات ناجائز زمین کی تو اسکا ذمہ دار کیا صرف ملک ریاض ہیں.اور بھی  لوگ ہو گے.تو صرف توپوں کا رخ صرف ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن میں رہنے والے پر ہی کیوں .کیا جب یہ سب ہو رہا تھا اس وقت ریاست سو رہی تھی.اگر ملک ریاض  قصوروار ہیں تو پھر ریاست کی اور اس وقت کے لوگ بی ذمہ دار ہیں .اگر ایک ناجائز  قبضہ والے بنی گلہ کے گھر کو لیگل کیا جا سکتا ہیں تو ایک بحریہ ٹاؤن جس میں پاکستانیوں کا پیسا لگا ہوا ہیں اسے کیوں نہیں..کیوں لوگوں کی روزی  کو بند کی جا رہا ہیں .کیا میسج  دیا جا رہا ہیں نیا کاروبارکرنے والوں کو.کہ ان کوبھی ملک ریاض بنا دیا جانے گا.اگر بقول عدالت کے بحریہ  ٹاؤن میں اتنا گپلا ہیں تو باقی ہاؤسنگ پروجیکٹس میں کیا ہو رہا ہو گا .ضرورت اس بات کی ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کے کیسز کو جلد سے  جلد کلیر کیا جائیں نہ کے تاریخ پر تاریخ اس کا نقصان پاکستان کی ریل اسٹیٹ انڈسٹری کو ہو رہ  ہیں.کچھ خیال کیا جانے   

Saturday, 15 December 2018

جمہوریت

Democracy 😍


حاجی شکور صاحب کے بڑے بیٹے کا بیان ہے کہ میرا یقین تو جمہوریت سے سنہ 1988 ہی میں اٹھ گیا تھا۔
کہنے لگا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک جمعرات کو میں اور میرے باقی تینوں بہن بھائی، امی ابو کے ساتھ مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ابا جان نے ہم سب سے پوچھا: بچو، کل تمھارے چچا کے گھر چلیں یا ماموں کے گھر۔


ہم سب بہن بھائیوں نے بہت شور مچاکر چچا کے گھر جانے کا کہا، ماسوائے امی کے جن کی رائے تھی کہ ماموں کے گھر جایا جائے۔
بات اکثریت کے مطالبے کی تھی اور رائے شماری سے طے پا گیا تھا کہ چچا کے گھر جانا ہے۔ امی کا موقف ہار گیا تھا۔ ابا جان نے بھی ہماری رائے کے احترام میں چچا کے گھر جانے کا فیصلہ سنا دیا۔ ہم سب بہن بھائی چچا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبائے جا سوئے۔


جمعہ کے دن صبح اٹھے تو امی نے گیلے بالوں کو تولیہ سے صاف کرتے ہوئے بمشکل اپنی ہنسی دبائے انھوں نے ہمیں کہا کہ سب جلدی سے کپڑے بدلو، ہم لوگ تمھارے ماموں کے گھر جا رہے ہیں۔

میں نے ابا جان کی طرف دیکھا جو خاموش اور توجہ سے اخبار پڑھنے کی ایکٹنگ فرما رہے تھے۔ میں غریب کا بال منہ تکتا رہ گیا۔
بس جی، میں نے تو اسی دن سے جان لیا ہے کہ جمہوریت، اکثریت کی رائے کا احترم اور ووٹ کو عزت دو وغیرہ تو ایک سے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ اصل فیصلے تو بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب غریب عوام سو رہی ہوتی ہے